Friday, July 5, 2013

ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ زندگی ﺑﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ


ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ زندگی ﺑﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ :

ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭩﺎ ﭘﮍﮪ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﺁﺩﻣﯽ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ. ﻭﺍﻟﺪ ﮐﯽ
ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ
ﻗﺎﺑﻞ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ. ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ
ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺭﮨﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﺳﭩﯿﭩﺲ ﻣﯿﮟ ﻓﭧ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ. ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺣﺠﺎﺏ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﯽ ﯾﮧ
ﺍﻥ ﭘﮍﮪ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ - ﺳﺎﺱ ﮨﮯ. ﺑﺎﺕ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ -
"ﻣﺎﮞ .. ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺍﺱ ﻗﺎﺑﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ
... ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﺮﺽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ. ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ
ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺁﺝ ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﺏ
ﺗﮏ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﺳﻮﺩ ﺳﻤﯿﺖ ﻣﻼ ﮐﺮ ﺑﺘﺎ ﺩﻭ. ﻣﯿﮟ
ﻭﮦ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ. ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﺍﻟﮓ - ﺍﻟﮓ ﺳﮑﮭﯽ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ.

ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ !!!

"ﺑﯿﭩﺎ _ ﺣﺴﺎﺏ ﺫﺭﺍ ﻟﻤﺒﺎ ﮨﮯ، ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ. ﻣﺠﮭﮯ
ﺗﮭﻮﮌﺍ ﻭﻗﺖ ﭼﺎﮨﯿﮯ".

ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮧ ﮐﮩﺎ"-ﻣﺎﮞ .... ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻠﺪﻱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ. ﺩﻭ - ﭼﺎﺭ
ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ".

ﺭﺍﺕ ﮨﻮﺋﯽ، ﺳﺐ ﺳﻮ ﮔﺌﮯ. ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﻮﭨﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻟﯿﺎ
ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ. ﺑﯿﭩﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﭘﺎﻧﯽ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ. ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﮐﺮﻭﭦ ﻟﮯ ﻟﯽ. ﻣﺎﮞ
ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ. ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺟﺲ
ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻭﭦ ﻟﯽ .. ﻣﺎﮞ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﻑ ﭘﺎﻧﯽ ﮈﺍﻟﺘﯽ
ﺭﮨﯽ ﺗﻮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﻛﮭﻴﺞ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ ﮐﮧ ﻣﺎﮞ
ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺴﺘﺮ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ - ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮ ﮈﺍﻻ ؟...
ﻣﺎﮞ ﺑﻮﻟﯽ -
"ﺑﯿﭩﺎ، ﺗﻮﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﻮ
ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ. ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﺭﺍﺗﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﺴﺘﺮ ﮔﯿﻼ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﮯ
ﺳﮯ ﺟﺎﮔﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻛﺎﭨﻲ ﮨﯿﮟ. ﯾﮧ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻮ
ﺍﺑﮭﯽ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮔﯿﺎ ؟.. ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﺣﺴﺎﺏ
ﺷﺮﻭﻉ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺗﻮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﭘﺎﺋﮯ".

ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﻧﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺟﮭﻨﺠﮭﻮﮌ ﮐﮯ
ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ. ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺭﺍﺕ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮔﺰﺍﺭ
ﺩﯼ. ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺳﮯ ﯾﮧ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ
زندگی ﺑﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ۔" :'(

کیا ماں کی محبت کا قرض ادا کیا جا سکتا ہے ؟؟؟ ۔ "

Thursday, July 4, 2013

ایسا تکبر اور ایسی بڑائی جس کا ٹھکانا ایک وحشتناک قبر ہے


جنوبی افریقیا کے شہر جوھانسبرگ سے لندن آتے ہوئے پرواز کے دوران، اکانومی کلاس میں ایک سفید فام عورت جس کی عمر پچاس یا اس سے کچھ زیادہ تھی کی نشست اتفاقا ایک سیاہ فام آدمی کے ساتھ بن گئی۔

عورت کی بے چینی سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ اس صورتحال سے قطعی خوش نہیں ہے۔ اس نے گھنٹی دیکر ایئر ہوسٹس کو بلایا اور کہا کہ تم اندازہ لگا سکتی ہو کہ میں کس قدر بری صورتحال سے دوچار ہوں۔ تم لوگوں نے مجھے ایک سیاہ فام کے پہلو میں بٹھا دیا ہے۔ میں اس بات پر قطعی راضی نہیں ہوں کہ ایسے گندے شخص کے ساتھ سفر کروں۔ تم لوگ میرے لئے متبادل سیٹ کا بندوبست کرو۔
ایئر ہوسٹس جو کہ ایک عرب ملک سے تعلق رکھنے والی تھی نے اس عورت سے کہا، محترمہ آپ تسلی رکھیں، ویسے تو جہاز مکمل طور پر بھرا ہوا ہے لیکن میں جلد ہی کوشش کرتی ہوں کہ کہیں کوئی ایک خالی کرسی تلاش کروں۔

ایئرہوسٹس گئی اور کچھ ہی لمحات کے بعد لوٹی تو اس عورت سے کہا، محترمہ، جس طرح کہ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ جہاز تو مکمل طور پر بھرا ہوا ہے اور اکانومی کلاس میں ایک بھی کرسی خالی نہیں ہے۔ میں نے کیپٹن کو صورتحال سے آگاہ کیا تو اس نے بزنس کلاس کو بھی چیک کیا مگر وہاں پر بھی کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔ اتفاق سے ہمارے پاس فرسٹ کلاس میں ایک سیٹ خالی ہے۔

اس سے پہلے کہ وہ سفید فام عورت کچھ کہتی، ایئرہوسٹس نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے کہا، ہماری کمپنی ویسے تو کسی اکانومی کلاس کے مسافر کو فرسٹ کلاس میں نہیں بٹھاتی، لیکن اس خصوصی صورتحال میں کیپٹن نے فیصلہ کیا ہے کہ کوئی شخص ایسے گندے شخص کے ساتھ بیٹھ کر اپنا سفر ہرگز طے نا کرے۔ لہذا۔۔۔۔

ایئرہوسٹس نے اپنا رخ سیاہ فام کی طرف کرتے ہوئے کہا، جناب محترم، کیا آپ اپنا دستی سامان اُٹھا کر میرے ساتھ تشریف لائیں گے؟ ہم نے آپ کیلئے فرسٹ کلاس میں متبادل سیٹ کا انتظام کیا ہے۔
آس پاس کے مسافر جو اس صورتحال کو بغور دیکھ رہے تھے، ایسے فیصلے کی قطعی توقع نہیں رکھ رہے تھے۔ لوگوں نے کھڑے ہو کر پر جوش انداز سے تالیاں بجا کر اس فعل کو سراہا جو کہ اس سفید فام عورت کے منہ پر ایک قسم کا تھپڑ تھا۔

بنی آدم جس کی پیدائش نطفے سے ہوئی, جس کی اصلیت مٹی ہے, جس کے اعلیٰ ترین لباس ایک کیڑے سے بنتے ہیں, جس کا لذیذ ترین کھانا ایک (شہد کی) مکھی کے لعاب سے بنتا ہے، اور ایسا تکبر اور ایسی بڑائی جس کا ٹھکانا ایک وحشتناک قبر ہے

Monday, July 1, 2013

رات والا معاملہ


اورنگ زیب عالمگیربڑا مشہور مغل شہنشاہ گزرا ہے اس نے ہندوستان پر تقریباً 50سال حکومت کی تھی۔ ایک دفعہ ایک ایرانی شہزادہ اسے ملنے کے لئے آیا۔ بادشاہ نے اسے رات کو سلانے کا بندوبست اس کمرے میں کرایا جو اس کی اپنی خوابگاہ سے منسلک تھا۔
ان دونوں کمروں کے باہر بادشاہ کا ایک بہت مقرب حبشی خدمت گزار ڈیوٹی پر تھا۔ اس کا نام محمد حسن تھا۔ اور بادشاہ اسے ہمیشہ محمد حسن ہی کہا کرتاتھا
ھا۔ اس رات نصف شب کے بعد بادشاہ نے آواز دی’’حسن! ‘‘۔ نوکر نے لبیک کہا اور ایک لوٹا پانی سے بھرکر بادشاہ کے پاس رکھا اور خود واپس باہر آگیا۔ ایرانی شہزادہ بادشاہ کی آواز سن کر بیدار ہوگیا تھا اور اس نے نوکر کو پانی کا لوٹا لیے ہوئے بادشاہ کے کمرے میں جاتے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ نوکر لوٹا اندر رکھ کر باہر واپس آگیا ہے۔ اسے کچھ فکر لاحق ہوگئی کہ بادشاہ نے تو نوکر کو آواز دی تھی اور نوکر پانی کا لوٹا اس کے پاس رکھ کر واپس چلا گیا ہے۔ یہ کیا بات ہے؟
صبح ہوئی شہزادے نے محمد حسن سے پوچھا کہ
رات والا کیا معاملہ ہے؟ مجھے تو خطرہ تھا کہ بادشاہ دن نکلنے پر تمہیں قتل کرادے گا کیونکہ تم نے بادشاہ کے کسی حکم کا انتظار کرنے کی بجائے لوٹا پانی سے بھر کر رکھ دیا اور خود چلے گئے۔
نوکر نے کہا:’’عالی جاہ !ہمارے بادشاہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی بغیر وضو نہیں لیتے۔ جب انہوں نے مجھے حسن کہہ کر پکارا تو میں سمجھ گیا کہ ان کا وضو نہیں ہے ورنہ یہ مجھے ’’محمد حسن‘‘ کہہ کر پکارتے
اس لیے میں نے پانی کا لوٹا رکھ دیا تاکہ وہ وضو کرلیں۔

Sunday, June 30, 2013

حکایات شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ

دو شخص آپس کی مخالفت میں اس حد تک پہنچے ہوئے تھے کہ چیتے کی طرح ایک دوسرے پر حملہ کرنے کی سوچتے تھے۔ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ اک دوسرے کی نظروں سے بچنے کے لیے انہیں آسمان کے نیچے جگہ نہ ملتی تھی۔ ان میں ایک کو موت نے آ دبوچا۔ دوسرے کو اس کی موت کی بہت خوشی ہوئی۔ کافی عرصے بعد وہ اس کی قبر کے باس سے گذرا تو اس نے دیکھا کہ جس متکبر کے مکان پر سونے کی پاش ہوئی تھی آج اس کی قبر مٹی سے لپی ہوئی تھی۔ غصے میں آکر اس نے مرے ہوئے دشمن کی قبر کا تختہ اکھاڑ ڈالا۔ دیکھا تو تاج پہننے والا سرایک گڑھے میں پڑا ہوا تھا۔اس کی خوبصورت آنکھوں میں مٹی بھری ہوئی تھی۔ وہ قبر کی جیل میں قید ہو چکا تھا اور اس کے جسم کو کیڑے مکوڑے کھارہے تھے۔اس کا موٹا تازہ جسم پہلی رات کے چاند کی طرح دبلا ہو چکا تھا اور اس کا سر و قد تنکے کی طرح باریک ہو گیا تھا۔ اس کے پنجے اور ہتھیلی کے جوڑ بالکل علیحدہ ہو چکے تھے۔ دشمن کی یہ حالت زار دیکھ کر اس کا دل بھر آیا۔ اس کے آنسوئوں سے قبر کی مٹی تر ہو گئی۔ وہ اپنے کرتوتوں پر شرمندہ ہو گیا اور تلافی کے لیے اس نے حکم دیا کہ اس کی قبر پر لکھ دیا جائے کہ کوئی شخص کسی دشمن کی موت پر خوش نہ ہو کیونکہ وہ خود بھی زیادہ دن موت کے ہاتھوں سے بچ نہیں سکے گا۔ اس کی یہ بات سن کر ایک خدا شناس آدمی کو رونا آگیا اور کہنے لگا۔ اے قادرمطلق خدا! اگر تو نے اس کی بخشش نہ کی جس کی حالت زار پر دشمن بھی رو پڑا تو تیری رحمت پر بڑا تعجب ہوگا۔ ہمارا جسم بھی کسی دن ایسا ہو جائے گا کہ اسے دیکھ کر دشمنوں کو بھی رحم آجائے گا۔ دو دن کی زندگی ہے کوئی نہیں جانتا موت کب آجائے اس زندگی میں کسی چیز پر غرور اور تکبر نہ کرنا چاہیے . . .

حکایات شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ،،
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﻼﺯﻡ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻓﺘﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺩﻓﺘﺮ ﮐﮯ ﮔﯿﭧ ﭘﺮ ﻟﮕﮯﮨﻮﺋﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﭨﺲ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺘﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﺎﻭﭦ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﻞ ﺭﺍﺕ ﺍﺳﮑﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺁﭖﺳﮯ ﮔﺰﺍﺭﺵ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﺭﺳﻮﻣﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺎﻧﻔﺮﻧﺲ ﮨﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﺁﺋﯿﮟﺟﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﻣﯿﺖ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ۔ﯾﮧ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺍﺩﺍﺱ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﭼﻨﺪﻟﻤﺤﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﺠﺴﺲ ﻏﺎﻟﺐ ﺁ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺁﺧﺮﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﮐﻮﻥ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ
ﺭﮐﺎﻭﭦ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﺗﺠﺴﺲ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﮐﺎﻧﻔﺮﺱ ﮨﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﮯﺩﻓﺘﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﻗﯽ
ﺳﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻧﻮﭨﺲ ﮐﻮ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ ﮐﮧﺁﺧﺮ ﯾﮧ ﺷﺨﺺ ﮐﻮﻥ ﺗﮭﺎ۔
ﮐﺎﻧﻔﺮﺱ ﮨﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﮨﺠﻮﻡ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺳﮑﯿﻮﺭﭨﯽ ﮔﺎﺭﮈﮐﻮ ﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺍ ﮐﮧ ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺖ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﮟ۔
ﺳﺐ ﻣﻼﺯﻣﯿﻦ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺖ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﮐﻔﻦ ﮨﭩﺎﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﯽ ﻟﯿﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺯﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﮓ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﯽ ﺯﺑﺎﻥﮔﻮﯾﺎ ﺗﺎﻟﻮ ﺳﮯ ﭼﭙﮏ ﺟﺎﺗﯽ ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺘﺎ ﮐﮧ ﮔﻮﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﮔﮩﺮﯼ ﺿﺮﺏ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﮨﻮ۔
ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺁﻧﮯ ﭘﺮ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺖ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﮐﭙﮍﺍ ﮨﭩﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎﺣﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﺟﯿﺴﺎ ﮨﯽ ﮨﻮﺍ
ﮐﻔﻦ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﺳﺎ ﺁﺋﯿﻨﮧ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺷﺨﺺ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﺘﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﮐﺮﮐﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﺎﻭﭦﺑﻦ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺁﭖ ﺧﻮﺩ ﮨﯿﮟ۔
ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﯿﮱ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﺁﭖ ﮐﯽ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺑﺎﺱ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮﻧﮯﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ۔ﺁﭖ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﺗﺐ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﻼﺣﯿﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯﮨﯿﮟ ، ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﮐﻮ ﻣﻤﮑﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﮐﻮ ﭼﯿﻠﻨﺞ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﺠﺰﯾﮧ ﮐﺮﯾﮟ ۔ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮﺁﺯﻣﺎﺋﯿﮟ ۔ ﻣﺸﮑﻼﺕ ، ﻧﻘﺼﺎﻧﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﻣﻤﮑﻨﺎﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍﻧﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻓﺎﺗﺢ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ
ﺟﯿﺌﯿﮟ