Thursday, July 25, 2013

ساکھ بچنی چاہیے



اس خاتون سے ہوائی اڈے پر جہاز کے انتظار میں وقت ہی نہیں کٹ پا رہا تھا۔ کچھ سوچ کر دکان سے جا کر وقت گزاری کیلئے ایک کتاب اور کھانے کیلئے بسکٹ کا ڈبہ خریدا۔ واپس انتظار گاہ میں جا کر کتاب پڑھنا شروع کی۔ اس عورت کے ساتھ ہی دوسری کرسی پر ایک اور مسافر بیٹھا کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا۔ ان دونوں کے درمیان میں لگی میز پر رکھے بسکٹ کے ڈبے سے جب خاتون نے بسکٹ اٹھانے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو اسے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ اس ساتھ بیٹھے مسافر نے بھی اس ڈبے سے ایک بسکٹ اٹھا لیا تھا۔ خاتون کا غصے کے مارے برا حال ہو رہا تھا، اس کا بس نہیں چل رہا تھا، ورنہ تو وہ اُس کے منہ پر اس بے ذوقی اور بے ادبی کیلئے تھپڑ تک مارنے کا سوچ رہی تھی۔
اس کی حیرت اس وقت دو چند ہوگئی جب اس نے دیکھا کہ جیسے ہی وہ ڈبے سے ایک بسکٹ اٹھاتی وہ مسافر بھی ایک بسکٹ اٹھا لیتا۔ غصے سے بے حال وہ اپنی جھنجھلاہٹ پر بمشکل قابو رکھ پا رہی تھی۔
جب ڈبے میں آخری بسکٹ آن بچا تو اب اس کے دل میں یہ بات جاننے کی شدید حسرت تھی کہ اب یہ بد تمیز اور بد اخلاق شخص کیا کرے گا، کیا وہ اب بھی اس آخری بسکٹ کی طرف ہاتھ بڑھائے گا یا یہ آخری بسکٹ اس کیلئے رکھ چھوڑے گا؟
تاہم اس کی حیرت اپنے عروج پر جا پہنچی جب مسافر نے اس آخری بسکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آدھا خود اٹھا لیا اور آدھا اس کیلئے چھوڑ دیا تھا۔ خاتون کیلئے اس سے بڑھ کر اہانت کی گنجائش نہیں رہتی تھی۔ آدھے بسکٹ کو وہیں ڈبے میں چھوڑ کر، کتاب کو بند کرتے ہوئے، اٹھ کر غصے سے پاؤں پٹختی امیگریشن سے ہوتی ہوئی جہاز کی طرف چل پڑی۔
جہاز میں کرسی پر بیٹھ کر اپنے دستی تھیلے کو اس میں سے عینک نکالنے کیلئے کھولا تو یہ دیکھ کر حیرت سے اس کی جان ہی نکل گئی کہ اس کا خریدا ہوا بسکٹ کا ڈبہ تو جوں کا توں تھیلے میں بند رکھا ہوا تھا۔
ندامت اور شرمندگی سے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔ اسے اب پتہ چل رہا تھا کہ وہ ہوائی اڈے پر بسکٹ اس شخص کے ڈبے سے نکال کر کھاتی رہی تھی۔
اب دیر سے اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ شخص کس قدر ایک مہذب اور رحمدل انسان تھا، جس نے کسی شکوے اور ہچکچاہٹ کے بغیر اپنے ڈبے سے اسے بسکٹ کھانے کو دیئے تھے۔ وہ جس قدر اس موضوع پر سوچتی اسی قدر شرمدنگی اور خجالت بڑھتی جا رہی تھی۔
اس شرمندگی اور خجالت کا اب مداوا کیا ہو سکتا تھا، اس کے پاس نا تو اتنا وقت تھا کہ جا کر اس آدمی کو ڈھونڈھے، اس سے معذرت کرے، اپنی بے ذوقی اور بے ادبی کی معافی مانگے، یا اس کی اعلٰی قدری کا شکریہ ادا کرے۔ بے چینی سے نا تو اسے مناسب الفاظ مل پارہے تھے جن سے اس شخص کو تعبیر کرتی اور سفر کی مجبوری اسے کہیں جانے نہیں دے رہی تھی۔
جی ہاں، چار باتیں ایسی ہیں جن کے بگاڑ کی اصلاح بعد میں نہیں ہو سکتی؛ 1: کمان سے نکلا تیر 2: زبان سے نکلے ہوئے الفاظ 3: موقع ہاتھ سے نکل جانے کے بعد 4: وقت گزر جانے کے بعد
 

Friday, July 19, 2013

ایک نوجوان کا گزر ایک فقیر کے پاس سے ہوا اس نے رک کر اُسے کچھ دینا چاہالیکن جب جیب میں ہاتھ ڈالا . . اسے پتہ چلا کہ بٹوا وہ گھر بھول آیا ہےاُس نے فقیر سے معذرت کرتے ہوئے کہا : معاف کرنا بڑے میاں !!میں بٹوا گھر چھوڑ آیا ہوں . . ان شا ء اللہ میں ابھی لیکر آتا ہوںفقیر نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا : بیٹا تم نے مجھے سب سے زیادہ دیا ہےلڑکا حیران و ششدر ہو کر : لیکن بڑے میاں میں نے تو آپ کو کچھ نہیں دیا ۔ فقیر نے کہا :تم نے مجھ سے معذرت کی مجھے عزت و تکریم دی اور ...ایسے کبھی بھی مجھے کسی نے مخاطب نہیں کیااور یہ میرے نزدیک روپے پیسے سے زیادہ اہم اور عزیز ہے

اے اللہ ! ! ہماری مدد فرما کہ ہم جو بھی کلمہ زبان سے نکالیں اس کی قدر وقیمت کا اندازہ ہمیں اندازہ اور احساس بھی ہواور اے ہمارے رب نیکی کے کاموں میں ہماری مدد فرما

Sunday, July 14, 2013


اُس نے گاڑی پوسٹ آفس کے باہر روک دی،"ابا یہ لیجیے آپ یہ 100 روپے رکھ لیجیے جب پینشن لے چکیں گے تو رکشے میں گھر چلے جائیے گا،مجھے دفتر سے دیر ہو رہی ہے"۔۔بوڑھے باپ کو اُتار کر وہ تیزی سے گاڑی چلاتا ہوا آگے نکل گیا،افضل چند لمحے بیٹے کی دور جاتی ہوئی گاڑی کو دیکھتا رہا پھر ایک ہاتھ میں پینشن کے کاغذ اور ایک ہاتھ میں بیٹے کا دیا ہوا سو روپے کا نوٹ پکڑے وہ اُس لمبی سی قطار کے آخرمیں جا کر کھڑا ہو گیا جس میں اُسی جیسے بہت سے بوڑھے کھڑے تھے، سب کے چہروں پر عمر رفتہ کے نشیب و فراز پرانی قبروں پر لگے دُھندلے کتبوں کی مانند کندہ تھے۔ آج پینشن لینے کا دن تھا، قطار لمبی ہوتی جارہی تھی،پوسٹ آفس کی جانب سے پینشن کی رقم ادا کرنے کا عمل خاصا سست تھا۔ سورج آگ برساتا تیزی سے منزلیں طے کرنے میں مصروف تھا، بے رحم تپتی دھوپ بوڑھوں کو بے حال کرنے لگی، کچھ اُدھر ہی قطار میں ہی بیٹھ گئے، افضل بھی بے حال ہونے لگا، اُس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا اور لڑکھڑا کر اُدھر قطار میں ہی بیٹھ گیا، اچانک ذہن کے پردے پر اپنے بیٹے کا بچپن ناچنے لگا، وہ جب کبھی اچھلتے کودتے گر جاتا تو وہ کیسے دوڑ کر اُسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیتا تھا، اس کے کپڑوں سے دھول جھاڑتا، اُس کے آنسو نکلنے سے پہلے ہی اُسے پچکارتا، پیار کرتا، مگر آج وہ خود لڑکھڑا کر دھول میں لتھڑ رہا تھا اور اُسے اٹھانے والا اُسے یہاں اس طرح چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ وہ مٹھی کھول کر100 روپے کے اس نوٹ کو دیکھنے لگا جو صبح بیٹا اُس کے ہاتھ میں تھما کر چلا گیا تھا، وہ سوچنے لگا کہ ساری عمر ایمانداری سے ملازمت کر کے، بیٹے کو پڑھا لکھا کر، اُس کی شادی کر کے کیا اُس کی زندگی کا سفر اس 100 روپے کے نوٹ پر آ کر ختم ہو گیا ہے؟ پسینہ اور آنکھوں سے بہتے آنسو چہرے کی جُھریوں میں ایک ساتھ سفر کرتےہوئے زمین پر ٹپکے اور دھول اوڑھ کر اپنا وجود کھو بیٹھے، اُسے لمبی قطار دیکھ کر اب ایسا محسوس ہونے لگا جیسے کانٹوں بھرے راستوں پر ابھی مزید سفر باقی ہے

Wednesday, July 10, 2013

معاف کرنے والے انسان کو الله بھی بہت پسند کرتا ہے۔


معاف کرنے والے انسان کو الله بھی بہت پسند کرتا ہے۔

ایک مرتبہ ہمارے ایک ٹیچر نے ہم سے ہر ایک کو پلاسٹک کا ایک شفاف تھیلا اور آلوؤں کی ایک بوری لانے کو کہا
جب ہم تھیلا اور بوری لے آئے تو ٹیچر نے کہا ہم ہر اس فرد کے نام پر جسے ہم نے اپنی زندگی میں معاف نہیں کیا، ایک ایک آلو چن لیں اور اس آلو پر اس فرد کا نام اور تاریخ لکھ کر اسے پلاسٹک کے تھیلے میں ڈالتے جائیں-
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں ہم میں سے چند کے تھیلے خاصے بھاری ہو گئے-
پھر ہم سے کہا گیا کہ ہم اس تھیلے کو ایک ہفتے کے لئے ہر جگہ اپنے ساتھ ساتھ لئے پھریں-
رات کو سوتے وقت اس تھیلے کو اپنے بیڈ کے ساتھ رکھیں، ڈرائیونگ کرتے وقت اسے اپنی کار کی نشست کے پاس رکھیں، جب کام کر رہے ہوں تو اسے اپنی میز کے برابر رکھیں-
اس تھیلے کو ساتھ ساتھ گھسیٹے پھرنا ایک آزار ہو گیا اور پھر ہر وقت اس پر توجہ دینی پڑتی تھی کہ کہیں بھول نہ جائیں-
بعض اوقات تو اسے ساتھ لئے ایسی جگہوں پر جانا پڑتا تھا کہ ہمیں بے حد شرمندگی ہوتی تھی-
بعڞ مقامات پر اسے چھوڑ کر بھی خفت اٹھانا پڑتی تھی-
قدرتی طور پر آلوؤں کی حالت خراب ہونے لگی-
وہ پلپلے اور بدبودار ہونے لگے-
تب ہم پر آشکار ہوا کہ روحانی طور پر ہم اپنے آپ پر کیا وزن لادے پھر رہے ہیں-
یہ اس بات کا ایک زبردست استعارہ تھا کہ ہم اپنی تکلیف اور اپنی منفی سوچ کی کیا قیمت چکا رہے ہیں-
ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ معاف کر دینا دوسرے فرد کے لئے ایک تحفہ ہے-
اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے-
لیکن ساتھ ہی واضح طور پر یہ ہمارے لئے بھی ایک تحفہ ہے! سو اگلی مرتبہ جب آپ کسی کو معاف نہ کرنے کا فیصلہ کریں تو اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کیا میرا تھیلا پہلے سے خاصہ بھاری بھرکم نہیں ہو گیا؟
اور پھر جب آپ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو اگر کسی نے آپ کی دل آزاری کی ہے اور آپ نے اسے معاف نہیں کیا تھا تو اسے معاف کر دیں تا کہ الله تعالیٰ آپ کے گناہوں کو بھی معاف کر دے-
معاف کرنے والے انسان کو الله بھی بہت پسند کرتا ہے۔

Tuesday, July 9, 2013

▀••▄•• جسم کا اہم ترین حصہ ••▄••▀

▀••▄•• جسم کا اہم ترین حصہ ••▄••▀

میری ماں مجھ سے اکثر پوچھتی تھی کہ “بتاؤ! جسم کا اہم ترین حصہ کونسا ہے؟”

میں سال ہا سال اس کے مختلف جواب یہ سوچ کر دیتا رہا کہ شاید اب کے میں صحیح جواب تک پہنچ گیا ہوں-

جب میں چھوٹا تھا تو میرا خیال تھا کہ آواز ہمارے لیۓ بہت ضروری ہے، لہذا میں نے کہا ” امی! میرے کان”

انہوں نے کہا “نہیں- دنیا میں بہت سے لوگ بہرے ہیں- تم مزید سوچو میں تم سے پھر پوچھوں گی-”

بہت سے سال گزرنے کے بعد انہوں نے پھر پوچھا!

میں نے پہلے سے زیادہ ذہن پر زور دیا اور بتایا کہ “امی! نظر ہر ایک کے لیۓ بہت ضروری ہے لہذا اس کا جواب آنکھیں ہونا چاہیۓ”

انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا “تم تیزی سے سیکھ رہے ہو، لیکن یہ جواب صحیح نہیں ہے کیونکہ دنیا میں بہت سے لوگ اندھے ہیں”

پھر ناکامی ہوئی اور میں مزید علم کی تلاش میں مگن ہو گیا- اور پھر بہت سے سال گزرنے کے بعد میری ماں نے کچھ اور دفعہ یہی سوال دہرایا اور ہمیشہ کہ طرح ان کا جواب یہی تھا کہ “نہیں- لیکن تم دن بدن ہوشیار ہوتے جا رہے ہو-”

پھر ایک سال میرے دادا وفات پا گئے- ہر کوئی غمزدہ تھا- ہر کوئی رو رہا تھا- یہاں تک کہ میرے والد بھی روئے- یہ مجھے خاص طور پر اس لیۓ یاد ہے کہ میں نے کبھی انھیں روتے نہیں دیکھا تھا-

جب جنازہ لے جانے کا وقت ہوا تو میری ماں نے پوچھا “کیا تم جانتے ہو کہ جسم کا سب سے اہم حصہ کونسا ہے؟-”

مجھے بہت تعجب ہوا کہ اس موقع پر یہ سوال! میں تو ہمیشہ یہی سمجھتا تھا کہ یہ میرے اور میری ماں کے درمیان ایک کھیل ہے-

انہوں نے میرے چہرے پر عیاں الجھن کو پڑھ لیا اور کہا!
“یہ بہت اہم سوال ہے- یہ ظاہر کرتا ہے کہ تم اپنی زندگی میں کھوۓ ہوئے ہو- ہر وہ جواب جو تم نے مجھے دیا وہ غلط تھا اور اس کی وجہ بھی میں نے تمہیں بتائی کہ کیوں- لیکن آج وہ دن ہے جب تمہیں یہ اہم سبق سیکھنا ہے”

انہوں نے ایک ماں کی نظر سے مجھے دیکھا اور میں نے ان کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں دیکھیں- انہوں نے کہا! “بیٹا! جسم کا اہم ترین حصہ کندھے ہیں-”

میں نے پوچھا! “کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے میرے سر کو اٹھا رکھا ہے؟”

انہوں نے کہا کہ “نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کا کوئی پیارا کسی تکلیف میں رو رہا ہو تو یہ اس کے سر کو سہارہ دے سکتے ہیں- ہر کسی کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ان کندھوں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے- میں صرف یہ امید اور دعا کر سکتی ہوں کہ تمہاری زندگی میں بھی وہ پیارے اور مخلص لوگ ہوں، کہ ضرورت پڑنے پر جن کے کندھے پر تم سر رکھ کر رو سکو-

یہ وہ وقت تھا کہ جب میں نے سیکھا کہ جسم کا اہم ترین حصہ خودغرض نہیں ہو سکتا- یہ دوسروں کے لیۓ بنا ہے- یہ دوسروں کے دکھ درد کا ساتھی اور ہمدرد ہے-

دوستو! لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ آپ نے کیا کہا- لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آپ نے کیا کیا- لیکن لوگ یہ کبھی نہیں بھول سکتے کہ آپ نے انھیں کیسا محسوس کرایا