معاف کرنے والے انسان کو الله بھی بہت پسند کرتا ہے۔
ایک مرتبہ ہمارے ایک ٹیچر نے ہم سے ہر ایک کو پلاسٹک کا ایک شفاف تھیلا اور آلوؤں کی ایک بوری لانے کو کہا
جب ہم تھیلا اور بوری لے آئے تو ٹیچر نے کہا ہم ہر اس فرد کے نام پر جسے
ہم نے اپنی زندگی میں معاف نہیں کیا، ایک ایک آلو چن لیں اور اس آلو پر اس
فرد کا نام اور تاریخ لکھ کر اسے پلاسٹک کے تھیلے میں ڈالتے جائیں-
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں ہم میں سے چند کے تھیلے خاصے بھاری ہو گئے-
پھر ہم سے کہا گیا کہ ہم اس تھیلے کو ایک ہفتے کے لئے ہر جگہ اپنے ساتھ ساتھ لئے پھریں-
رات کو سوتے وقت اس تھیلے کو اپنے بیڈ کے ساتھ رکھیں، ڈرائیونگ کرتے وقت
اسے اپنی کار کی نشست کے پاس رکھیں، جب کام کر رہے ہوں تو اسے اپنی میز کے
برابر رکھیں-
اس تھیلے کو ساتھ ساتھ گھسیٹے پھرنا ایک آزار ہو گیا اور پھر ہر وقت اس پر توجہ دینی پڑتی تھی کہ کہیں بھول نہ جائیں-
بعض اوقات تو اسے ساتھ لئے ایسی جگہوں پر جانا پڑتا تھا کہ ہمیں بے حد شرمندگی ہوتی تھی-
بعڞ مقامات پر اسے چھوڑ کر بھی خفت اٹھانا پڑتی تھی-
قدرتی طور پر آلوؤں کی حالت خراب ہونے لگی-
وہ پلپلے اور بدبودار ہونے لگے-
تب ہم پر آشکار ہوا کہ روحانی طور پر ہم اپنے آپ پر کیا وزن لادے پھر رہے ہیں-
یہ اس بات کا ایک زبردست استعارہ تھا کہ ہم اپنی تکلیف اور اپنی منفی سوچ کی کیا قیمت چکا رہے ہیں-
ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ معاف کر دینا دوسرے فرد کے لئے ایک تحفہ ہے-
اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے-
لیکن ساتھ ہی واضح طور پر یہ ہمارے لئے بھی ایک تحفہ ہے! سو اگلی مرتبہ جب
آپ کسی کو معاف نہ کرنے کا فیصلہ کریں تو اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کیا
میرا تھیلا پہلے سے خاصہ بھاری بھرکم نہیں ہو گیا؟
اور پھر جب آپ دعا
کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو اگر کسی نے آپ کی دل آزاری کی ہے اور آپ نے اسے
معاف نہیں کیا تھا تو اسے معاف کر دیں تا کہ الله تعالیٰ آپ کے گناہوں کو
بھی معاف کر دے-
معاف کرنے والے انسان کو الله بھی بہت پسند کرتا ہے۔
معاف کرنے والے انسان کو الله بھی بہت پسند کرتا ہے۔
ایک مرتبہ ہمارے ایک ٹیچر نے ہم سے ہر ایک کو پلاسٹک کا ایک شفاف تھیلا اور آلوؤں کی ایک بوری لانے کو کہا
جب ہم تھیلا اور بوری لے آئے تو ٹیچر نے کہا ہم ہر اس فرد کے نام پر جسے ہم نے اپنی زندگی میں معاف نہیں کیا، ایک ایک آلو چن لیں اور اس آلو پر اس فرد کا نام اور تاریخ لکھ کر اسے پلاسٹک کے تھیلے میں ڈالتے جائیں-
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں ہم میں سے چند کے تھیلے خاصے بھاری ہو گئے-
پھر ہم سے کہا گیا کہ ہم اس تھیلے کو ایک ہفتے کے لئے ہر جگہ اپنے ساتھ ساتھ لئے پھریں-
رات کو سوتے وقت اس تھیلے کو اپنے بیڈ کے ساتھ رکھیں، ڈرائیونگ کرتے وقت اسے اپنی کار کی نشست کے پاس رکھیں، جب کام کر رہے ہوں تو اسے اپنی میز کے برابر رکھیں-
اس تھیلے کو ساتھ ساتھ گھسیٹے پھرنا ایک آزار ہو گیا اور پھر ہر وقت اس پر توجہ دینی پڑتی تھی کہ کہیں بھول نہ جائیں-
بعض اوقات تو اسے ساتھ لئے ایسی جگہوں پر جانا پڑتا تھا کہ ہمیں بے حد شرمندگی ہوتی تھی-
بعڞ مقامات پر اسے چھوڑ کر بھی خفت اٹھانا پڑتی تھی-
قدرتی طور پر آلوؤں کی حالت خراب ہونے لگی-
وہ پلپلے اور بدبودار ہونے لگے-
تب ہم پر آشکار ہوا کہ روحانی طور پر ہم اپنے آپ پر کیا وزن لادے پھر رہے ہیں-
یہ اس بات کا ایک زبردست استعارہ تھا کہ ہم اپنی تکلیف اور اپنی منفی سوچ کی کیا قیمت چکا رہے ہیں-
ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ معاف کر دینا دوسرے فرد کے لئے ایک تحفہ ہے-
اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے-
لیکن ساتھ ہی واضح طور پر یہ ہمارے لئے بھی ایک تحفہ ہے! سو اگلی مرتبہ جب آپ کسی کو معاف نہ کرنے کا فیصلہ کریں تو اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کیا میرا تھیلا پہلے سے خاصہ بھاری بھرکم نہیں ہو گیا؟
اور پھر جب آپ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو اگر کسی نے آپ کی دل آزاری کی ہے اور آپ نے اسے معاف نہیں کیا تھا تو اسے معاف کر دیں تا کہ الله تعالیٰ آپ کے گناہوں کو بھی معاف کر دے-
معاف کرنے والے انسان کو الله بھی بہت پسند کرتا ہے۔
ایک مرتبہ ہمارے ایک ٹیچر نے ہم سے ہر ایک کو پلاسٹک کا ایک شفاف تھیلا اور آلوؤں کی ایک بوری لانے کو کہا
جب ہم تھیلا اور بوری لے آئے تو ٹیچر نے کہا ہم ہر اس فرد کے نام پر جسے ہم نے اپنی زندگی میں معاف نہیں کیا، ایک ایک آلو چن لیں اور اس آلو پر اس فرد کا نام اور تاریخ لکھ کر اسے پلاسٹک کے تھیلے میں ڈالتے جائیں-
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں ہم میں سے چند کے تھیلے خاصے بھاری ہو گئے-
پھر ہم سے کہا گیا کہ ہم اس تھیلے کو ایک ہفتے کے لئے ہر جگہ اپنے ساتھ ساتھ لئے پھریں-
رات کو سوتے وقت اس تھیلے کو اپنے بیڈ کے ساتھ رکھیں، ڈرائیونگ کرتے وقت اسے اپنی کار کی نشست کے پاس رکھیں، جب کام کر رہے ہوں تو اسے اپنی میز کے برابر رکھیں-
اس تھیلے کو ساتھ ساتھ گھسیٹے پھرنا ایک آزار ہو گیا اور پھر ہر وقت اس پر توجہ دینی پڑتی تھی کہ کہیں بھول نہ جائیں-
بعض اوقات تو اسے ساتھ لئے ایسی جگہوں پر جانا پڑتا تھا کہ ہمیں بے حد شرمندگی ہوتی تھی-
بعڞ مقامات پر اسے چھوڑ کر بھی خفت اٹھانا پڑتی تھی-
قدرتی طور پر آلوؤں کی حالت خراب ہونے لگی-
وہ پلپلے اور بدبودار ہونے لگے-
تب ہم پر آشکار ہوا کہ روحانی طور پر ہم اپنے آپ پر کیا وزن لادے پھر رہے ہیں-
یہ اس بات کا ایک زبردست استعارہ تھا کہ ہم اپنی تکلیف اور اپنی منفی سوچ کی کیا قیمت چکا رہے ہیں-
ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ معاف کر دینا دوسرے فرد کے لئے ایک تحفہ ہے-
اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے-
لیکن ساتھ ہی واضح طور پر یہ ہمارے لئے بھی ایک تحفہ ہے! سو اگلی مرتبہ جب آپ کسی کو معاف نہ کرنے کا فیصلہ کریں تو اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کیا میرا تھیلا پہلے سے خاصہ بھاری بھرکم نہیں ہو گیا؟
اور پھر جب آپ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو اگر کسی نے آپ کی دل آزاری کی ہے اور آپ نے اسے معاف نہیں کیا تھا تو اسے معاف کر دیں تا کہ الله تعالیٰ آپ کے گناہوں کو بھی معاف کر دے-
معاف کرنے والے انسان کو الله بھی بہت پسند کرتا ہے۔