Wednesday, July 10, 2013

معاف کرنے والے انسان کو الله بھی بہت پسند کرتا ہے۔


معاف کرنے والے انسان کو الله بھی بہت پسند کرتا ہے۔

ایک مرتبہ ہمارے ایک ٹیچر نے ہم سے ہر ایک کو پلاسٹک کا ایک شفاف تھیلا اور آلوؤں کی ایک بوری لانے کو کہا
جب ہم تھیلا اور بوری لے آئے تو ٹیچر نے کہا ہم ہر اس فرد کے نام پر جسے ہم نے اپنی زندگی میں معاف نہیں کیا، ایک ایک آلو چن لیں اور اس آلو پر اس فرد کا نام اور تاریخ لکھ کر اسے پلاسٹک کے تھیلے میں ڈالتے جائیں-
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں ہم میں سے چند کے تھیلے خاصے بھاری ہو گئے-
پھر ہم سے کہا گیا کہ ہم اس تھیلے کو ایک ہفتے کے لئے ہر جگہ اپنے ساتھ ساتھ لئے پھریں-
رات کو سوتے وقت اس تھیلے کو اپنے بیڈ کے ساتھ رکھیں، ڈرائیونگ کرتے وقت اسے اپنی کار کی نشست کے پاس رکھیں، جب کام کر رہے ہوں تو اسے اپنی میز کے برابر رکھیں-
اس تھیلے کو ساتھ ساتھ گھسیٹے پھرنا ایک آزار ہو گیا اور پھر ہر وقت اس پر توجہ دینی پڑتی تھی کہ کہیں بھول نہ جائیں-
بعض اوقات تو اسے ساتھ لئے ایسی جگہوں پر جانا پڑتا تھا کہ ہمیں بے حد شرمندگی ہوتی تھی-
بعڞ مقامات پر اسے چھوڑ کر بھی خفت اٹھانا پڑتی تھی-
قدرتی طور پر آلوؤں کی حالت خراب ہونے لگی-
وہ پلپلے اور بدبودار ہونے لگے-
تب ہم پر آشکار ہوا کہ روحانی طور پر ہم اپنے آپ پر کیا وزن لادے پھر رہے ہیں-
یہ اس بات کا ایک زبردست استعارہ تھا کہ ہم اپنی تکلیف اور اپنی منفی سوچ کی کیا قیمت چکا رہے ہیں-
ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ معاف کر دینا دوسرے فرد کے لئے ایک تحفہ ہے-
اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے-
لیکن ساتھ ہی واضح طور پر یہ ہمارے لئے بھی ایک تحفہ ہے! سو اگلی مرتبہ جب آپ کسی کو معاف نہ کرنے کا فیصلہ کریں تو اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کیا میرا تھیلا پہلے سے خاصہ بھاری بھرکم نہیں ہو گیا؟
اور پھر جب آپ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو اگر کسی نے آپ کی دل آزاری کی ہے اور آپ نے اسے معاف نہیں کیا تھا تو اسے معاف کر دیں تا کہ الله تعالیٰ آپ کے گناہوں کو بھی معاف کر دے-
معاف کرنے والے انسان کو الله بھی بہت پسند کرتا ہے۔

Tuesday, July 9, 2013

▀••▄•• جسم کا اہم ترین حصہ ••▄••▀

▀••▄•• جسم کا اہم ترین حصہ ••▄••▀

میری ماں مجھ سے اکثر پوچھتی تھی کہ “بتاؤ! جسم کا اہم ترین حصہ کونسا ہے؟”

میں سال ہا سال اس کے مختلف جواب یہ سوچ کر دیتا رہا کہ شاید اب کے میں صحیح جواب تک پہنچ گیا ہوں-

جب میں چھوٹا تھا تو میرا خیال تھا کہ آواز ہمارے لیۓ بہت ضروری ہے، لہذا میں نے کہا ” امی! میرے کان”

انہوں نے کہا “نہیں- دنیا میں بہت سے لوگ بہرے ہیں- تم مزید سوچو میں تم سے پھر پوچھوں گی-”

بہت سے سال گزرنے کے بعد انہوں نے پھر پوچھا!

میں نے پہلے سے زیادہ ذہن پر زور دیا اور بتایا کہ “امی! نظر ہر ایک کے لیۓ بہت ضروری ہے لہذا اس کا جواب آنکھیں ہونا چاہیۓ”

انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا “تم تیزی سے سیکھ رہے ہو، لیکن یہ جواب صحیح نہیں ہے کیونکہ دنیا میں بہت سے لوگ اندھے ہیں”

پھر ناکامی ہوئی اور میں مزید علم کی تلاش میں مگن ہو گیا- اور پھر بہت سے سال گزرنے کے بعد میری ماں نے کچھ اور دفعہ یہی سوال دہرایا اور ہمیشہ کہ طرح ان کا جواب یہی تھا کہ “نہیں- لیکن تم دن بدن ہوشیار ہوتے جا رہے ہو-”

پھر ایک سال میرے دادا وفات پا گئے- ہر کوئی غمزدہ تھا- ہر کوئی رو رہا تھا- یہاں تک کہ میرے والد بھی روئے- یہ مجھے خاص طور پر اس لیۓ یاد ہے کہ میں نے کبھی انھیں روتے نہیں دیکھا تھا-

جب جنازہ لے جانے کا وقت ہوا تو میری ماں نے پوچھا “کیا تم جانتے ہو کہ جسم کا سب سے اہم حصہ کونسا ہے؟-”

مجھے بہت تعجب ہوا کہ اس موقع پر یہ سوال! میں تو ہمیشہ یہی سمجھتا تھا کہ یہ میرے اور میری ماں کے درمیان ایک کھیل ہے-

انہوں نے میرے چہرے پر عیاں الجھن کو پڑھ لیا اور کہا!
“یہ بہت اہم سوال ہے- یہ ظاہر کرتا ہے کہ تم اپنی زندگی میں کھوۓ ہوئے ہو- ہر وہ جواب جو تم نے مجھے دیا وہ غلط تھا اور اس کی وجہ بھی میں نے تمہیں بتائی کہ کیوں- لیکن آج وہ دن ہے جب تمہیں یہ اہم سبق سیکھنا ہے”

انہوں نے ایک ماں کی نظر سے مجھے دیکھا اور میں نے ان کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں دیکھیں- انہوں نے کہا! “بیٹا! جسم کا اہم ترین حصہ کندھے ہیں-”

میں نے پوچھا! “کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے میرے سر کو اٹھا رکھا ہے؟”

انہوں نے کہا کہ “نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کا کوئی پیارا کسی تکلیف میں رو رہا ہو تو یہ اس کے سر کو سہارہ دے سکتے ہیں- ہر کسی کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ان کندھوں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے- میں صرف یہ امید اور دعا کر سکتی ہوں کہ تمہاری زندگی میں بھی وہ پیارے اور مخلص لوگ ہوں، کہ ضرورت پڑنے پر جن کے کندھے پر تم سر رکھ کر رو سکو-

یہ وہ وقت تھا کہ جب میں نے سیکھا کہ جسم کا اہم ترین حصہ خودغرض نہیں ہو سکتا- یہ دوسروں کے لیۓ بنا ہے- یہ دوسروں کے دکھ درد کا ساتھی اور ہمدرد ہے-

دوستو! لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ آپ نے کیا کہا- لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آپ نے کیا کیا- لیکن لوگ یہ کبھی نہیں بھول سکتے کہ آپ نے انھیں کیسا محسوس کرایا

میرا تو گھر اجڑتے اجڑتے بچا

پی ٹی سی ایل فون کے عروج کے دور میں ایک مسلئہ جو اکثر لوگوں کے ساتھ پیش آتا وہ رانگ نمبر تھا ، بعض دفعہ تو ایسی دلچسپ صورت پیش آتی کہ انسان مسکرانے پر مجبور ہو جاتا ہے
ایک صاحب کے ساتھ ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جو انکی زبانی پیش خدمت ہے
ایک دن اپنی بیگم کو اُس کی خالہ کی وفات کی اطلاع دینے کے لئے گھر فون کیا تو ایک اجنبی نسوانی آواز سُنائی دی۔ہم نے اپنی بیگم کے متعلق استفسار کیا تو جواب میں سوری رانگ نمبر سنائی دیا اور فون بند ہو گیا۔
دوبارہ کوشش کی تو وہی محترمہ بولیں ۔۔۔ ۔اس دفعہ اُن کی آواز میں خاصی خفگی تھی پھر سوری رانگ نمبر کہتے ہوئے غصے سے فون کا ریسیور پٹخ‌ دیا۔تیسری مرتبہ جو ڈائل کیا تو کافی دیر کے بعد وہی تلخ آواز میرے کانوں میں گونجی۔میں نے معذرت کرنا چاہی تو اُن معزز خاتون نے بے نقط سُنانی شروع کر دیں۔۔۔ ۔۔
تمہارے گھر میں ماں بہن نہیں ہے ؟ کمینے ذلیل “ وغیرہ ۔۔۔ ۔میں نے انتہائی صبر کے ساتھ تمام خرافات سُنیں ۔پھر جب اُس نے سانس لینے کے لئے گفتگو ایک لمحے کے لئے بند کی میں نے نہایت انکساری سے عرض کیا۔۔
اے محترم خاتون ! میں ایک عزت دار آدمی ہوں ،اپنی بیگم کو اُس کی اکلوتی خالہ کے انتقال پُر ملال کی خبر سُنانا تھی مگر محکمہ ٹیلیفون کی ستم ظریفی کی بدولت آپ سے گالیاں بھی کھائیں ،بے عزت بھی ہوا،مگر اپنی بیگم کو یہ منحوس خبر نہ سُنا سکا۔آپ بے شک اور گالیاں دے لیں لیکن خدا کے لئے ذرا میری بیوی کو فلاں نمبر پر فون کر کے یہ اطلاع دے دیں۔میں آپ کا بے حد احسان مند ہوں گا۔یہ سُن کر وہ محترمہ پسیج گئیں اور پھر معذرت کرتے ہوئے میری بیگم کو مطلع کرنے کی حامی بھر لی۔
تھوڑی دیر بعد میرے فون کی گھنٹی بجی تو ہماری بیگم انتہائی غصیلی آواز میں بولیں میں پوچھتی ہوں وہ چنڈال کون تھی جس کے ذریعے اب پیام بازی ہو رہی ہے ؟
میری خالہ فوت ہو گئی تھی مگر تمہاری زبان تو سلامت تھی۔۔اُس اپنی کچھ لگتی کو کیوں زحمت دی ؟
میں یہ سُن کر سکتے میں آگیا۔اب میں اُسے کیسے سمجھاتا کہ اُس نیک سیرت عورت نے تو مجھ پر احسان کرکے میری مشکل آسان کی تھی اور بجائے اُس کا شکریہ ادا کرنے کے ہماری بیگم نے اُسے بھی ضرور کچھ نہ کچھ کہہ ڈالا ہوگا۔آخر ہم نے گھر جا کر بڑی مشکل کے بعد بیگم کو اصل صورتِ حال سے آگاہ کرکے اُس کی غلط فہمی دور کی۔
اور ٹیلی فون کے محکمے کے حق میں دعا کی کہ اللہ انہیں اپنا قبلہ درست کرنے کی توفیق دے ۔ انکی وجہ سے میرا تو گھر اجڑتے اجڑتے بچا

Monday, July 8, 2013

آسمان و زمین کے چرخہ کو چلانے والا ایک ہی خدا ھے

ایک عالِم نے ایک بُڑھیا کو چرخہ کاتتے دیکھ کر فرمایا.. " اے بُڑھیا! ساری عُمر چرخہ ہی
کاتا ھے یا کچھ اپنے خدا کی بھی پہچان کی ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ "
بُڑھیا نے جواب دیا ۔۔۔۔ بیٹا مَیں نے تمہاری طرح موٹی موٹی کتابیں تو نہیں پڑھیں مگر ۔۔۔۔۔ " سب کچھ اِسی چرخہ میں دیکھ لیا.. "
فرمایا.. " بڑی بی! یہ تو بتاؤ کہ خدا موجود ھے یا نہیں..؟ "
بُڑھیا نے جواب دیا.. " ہاں ۔۔۔۔۔۔ ہر گھڑی اور رات دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر وقت ایک زبردست خدا موجود ھے.. "
عالِم نے فرمایا.. " مگر اس کی کوئی دلیل بھی ھے تمہارے پاس ..؟ "

بُڑھیا بولی.. " دلیل ھے ۔۔۔۔۔ یہ میرا چرخہ.. "
عالِم نے پوچھا.. " یہ معمولی سا چرخہ کیسے..؟ "
وہ بولی ۔۔۔۔۔۔۔ " وہ ایسے کہ جب تک مَیں اس چرخہ کو چلاتی رہتی ہُوں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ برابر چلتا
رہتا ھے ۔۔۔۔۔ اور جب مَیں اسے چھوڑ دیتی ہُوں ۔۔۔۔۔۔ تب یہ ٹھہر جاتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جب اس
چھوٹے سے چرخہ کو ہر وقت چلانے والے کی لازماً ضرورت ھے ۔۔۔۔۔۔۔ تو اِتنی بڑی کائنات یعنی زمین و آسمان ، چاند ، سورج کے اتنے بڑے چرخوں کو کس طرح چلانے والے کی ضرورت نہ ہو گی ۔۔۔۔۔۔ ؟
پس جس طرح میرے کاٹھ کے چرخہ کو ایک چلانے والا چاہیے ۔۔۔۔۔۔ اسی طرح زمین و آسمان
کے چرخہ کو ایک چلانے والا چاہیے ۔۔۔۔۔۔ جب تک وہ چلاتا رہے گا ۔۔۔۔۔۔ یہ سب چرخے چلتے
رہیں گے ۔۔۔۔۔۔ اور جب وہ چھوڑ دے گا ۔۔۔۔۔۔ تو یہ ٹھہر جائیں گے ۔۔۔۔۔۔ مگر ہم نے کبھی زمین
و آسمان ، چاند سورج کو ٹھہرے ہوئے نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جان لیا کہ ان کا چلانے والا ہر گھڑی موجود ھے.. "

عالم نے سوال کیا.. " اچھا یہ بتاؤ کہ آسمان و زمین کا چرخہ چلانے والا ایک ھے یا
دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ "

بُڑھیا نے جواب دیا.. " ایک ھے اور اس دعویٰ کی دلیل بھی یہی میرا چرخہ ھے ۔۔۔۔۔۔ کیوں
کہ جب اس چرخہ کو مَیں اپنی مرضی سے ایک طرف کو چلاتی ہُوں ۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ چرخہ میری
مرضی سے ایک ہی طرف کو چلتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی دوسرا چلانے والا ہوتا ۔۔۔۔۔۔ تب تو
چرخہ کی رفتار تیز یا آہستہ ہو جاتی ۔۔۔۔۔۔ اور اس چرخہ کی رفتار میں فرق آنے سے مطلوبہ نتیجہ حاصل نہ ہوتا ۔۔۔۔۔ یعنی اگر کوئی دوسرا صریحاً میری مرضی کے خلاف اور میرے چلانے کی مخالف جہت پر چلاتا ۔۔۔۔۔ تو یہ چرخہ چلتے چلتے ٹھہر جاتا ۔۔۔۔۔۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہُوا.. اس وجہ سے کہ کوئی دُوسرا چلانا والا ھے ہی نہیں ۔۔۔۔۔ اسی طرح آسمان و زمین کا چلانے والا اگر کوئی دُوسرا خدا ہوتا ۔۔۔۔۔۔ تو ضرور آسمانی چرخہ کی رفتار تیز ہو کر دن رات کے نظام میں فرق آ جاتا ۔۔۔۔۔۔ یا چلنے سے ٹھہر جاتا ۔۔۔۔۔ یا ٹوٹ جاتا ۔۔۔۔ جب ایسا نہیں ھے تو پھر ضرور آسمان و زمین کے چرخہ کو چلانے والا ایک ہی خدا ھے..!! "

''بچی -گرل فرینڈ- پڑھے لکھے لوفروں کے نام''

'''بچی -گرل فرینڈ- پڑھے لکھے لوفروں کے نام''

ایک سوال جو مجھے حیران کے رکھتا تھا .اور ہے .کے کائنات کی حد کیا ہے ...بلکل اسی طرح آج کل ایک اور سوال مجھے پریشان کیے ہوۓ ہے کہ ذلالت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ......

ہمارے ہاں ایک اصطلاح جو لڑکیوں کیے لیے استعمال کی جارہی ہے .غلط طور پر .اور بہت غلط انداز سے ..کہ گرل فرینڈ یا کوئی بھی دوست یا انجان لڑکی کو انتہائی لوفرانہ انداز میں ''بچی'' پکارا جاتا ہے .....''بچی '' کی یہ اصطلاح ذہنی بیمار پڑھے لکھے جاہلوں کی بدترین اختراع ہے ........

نفسیاتی لوگوں نے اپنی بیمار ذہنیت کی تسکین کیلیے اس لفظ ''بچی '' کو کچھ ایسے غلیظ انداز میں بے دردی سے استمال کیا ہے .کہ انسانیت کی روح شرافت کیے آئنے میں اپنا چہرہ دیکھنے کیے قابل نہیں ہوگی ......
بڑھتی ہوئی بے راہ روی کیے حوالے سے ہمارا لاپرواہانہ رویہ جانے ہمیں اب اور کیا کیا دن دکھائیگا ....

اپنی قبر اور اپنے اعمال کی بات .اگر آپ کی سوچ کا محور ہے .تو یاد رکھیے ہم سے زیادہ طاقتور قومیں برائی کے خلاف خاموش تمشائی کے کردار کی وجہ سے ہلاک کی جاچکی ہیں ......

چلیں آپ کو آخرت کی فکر نہ سہی .تو بھی اسی دنیا میں برائی کو دیکھ چپ رہنے کی عادت بہت جلد آپ کو پیشمان کر دیگی ...
کبوتر کی طرح آنکھ بند کرنے سے مصیبت نہیں ٹلتی .نا ہی شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دینا مسلہ کا حل ہوتا ہے .......

بڑھتی ہوئی بے راہ روی .فحش کلامی .غلط انداز گفتگو . .اور خراب طرز عمل کے خلاف اگر آپ چپ کا روزہ رکھنگے تو بہت جلد اس روزے کو اپنی عزت اور شرافت کے قیمے سے افطار کرنا پڑ سکتا ہے ...........

پاکیزہ لفظ بچی کو اپنی غلیظانہ سوچ میں لتھڑنے والے لوگ بھی یاد رکھیں .کہ وہ بھی کسی بچی کے بھائی یا باپ ہیں .نہیں تو ہونگے ضرور . ......اور ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کے ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے ..........اور کانٹے بو کر پھولوں کی تمنا نری حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں ..................

Sunday, July 7, 2013

اصلاح کرنا بہت مشکل

ایک نوجوان نے تصویر بنائی اور جا کر شہر کے چوک میں ٹانک دی نیچے لکھ دیا

" جہاں کہیں نقص ہو نشان لگا دیں"

شام کے وقت وہ خوش خوش واپس آیا اس کو یقین تھا کہ لوگوں نے تصویر کو پسند کیا ہو گا۔ لیکن یہ دیکھ کر بہت اداس ہوا کہ تصویر پر نشان ہی نشان لگے ہوۓ تھے۔ لڑکا پریشان حال گھر پہنچا، باپ نے وجہ پوچھی تو سارا قصہ سنا ڈالا۔ باپ نے کہا کہ ویسی ہی ایک تصویر بناؤ، اور اس پہ لکھو

" جہاں کہیں نقص ہو درست کر دیں"

لڑکے نے تصویر بنائی اور یہ لکھ کر شہر کے چوک میں آویزاں کر آیا۔
شام کو جب واپس گیا تو یہ دیکھ کر خوش ہوا کہ آج اس پر نشان نہیں تھے ۔

ہم دوسروں میں وہی نقص دیکھتے ہیں جو ہم میں موجود ہوتے ہیں ہم نقص تو نکال لیتے ہیں لیکن اصلاح نہیں کرتے۔
چونکہ نقص نکالنا آسان ہوتا ہے لیکن
اصلاح کرنا بہت مشکل۔

غیر اخلاقی گفتگو سے کسی کی تذلیل نہیں ہوتی بلکہ ہم اپنی ہی شخصیت کا اظہار کر دیتے ہیں۔