Saturday, June 22, 2013
بچپن میں نقشہ دیکھ کر ابو سے پوچھتی تھی کہ پاکستان اتنا سا کیوں ہے؟
یہاں بھی مسلمان یہاں بھی مسلمان.
مگر یہ علاقہ پاکستان میں کیوں نہیں؟
قائداعظم تو بہت طاقتور تھے انہوں نے کیوں نہیں لڑائی کی؟
ابو کہتے کہ بس پنجاب اور سندھ میں کچھ فیکٹریاں تھیں. باقی جگہوں پر صرف
پہاڑ اور پتھر. انگریزوں نے جان بوجھ کر ایسا علاقہ دیا تاکہ یہاں کچھ بھی
نہ ہو. اور پاکستان جلدی ختم ہوجائے. نعوذ باللہ.
دل کڑھتا تھا بلوچستان کو دیکھ کر. میں وہاں کی زمین پر سپورٹس سٹی بنوانا
چاہتی تھی. جہاں دنیا کا ہر کھیل ہو. جہاں اولمپکس کرائے جائیں. ابو کہتے
کہ وہاں آبادی کم ہے. اب پہاڑ کاٹ کر گیس اور پانی کی پا ئپ لائن بچھائی
جائے وہ بھی سو پچاس گھروں کے لئے اتنا خرچہ کیا جائے پھر وہ بل دینے کے
بھی خلاف ھیں. اسی وجہ سے کوئی سنجیدہ نہیں ہوتا.
بڑا غصہ آتا تھا. کہ قائداعظم تھوڑا پنجاب کا علاقہ بھی شامل کرا لیتے تو اچھا ہوتا.
مجھے نہیں معلوم تھا کہ پاکستان کا نقشہ کس نے بنایا ہے اور اس طرح بنایا
کہ اپنا پیارا نام بھی لکھ دیا. محمد صلی اللہ علیہ وسلم. اور یہ بھی معلوم
نہیں تھا کہ بلوچستان کے پہاڑوں میں سونے تیل اور تانبے کے خزانے ہیں.
انگریزوں نے جانے کتنی محنت کتنے سال کی مکاریوں کے بعد پاکستان کا نقشہ
دیکھ کر سوچا ھوگا کہ جناح کو بیوقوف بنا دیا. وہ اس نقشے پر خوش ہوگئے.
مگر قرآن میں ہے نہ کہ اللہ بہترین چال چلنے والا ہے؟
انہوں نے اپنی طرف سے بڑی چال چلی. مگر اللہ کے سامنے ہر چال ناکام ھو گئ
.
اب ان کافروں نے نیا نقشہ بنایا ہے. پاکستان کی فوج کو حکومت، عوام اور
میڈیا کی مدد اور حمایت سے محروم کر کے تنہا جنگ لڑنے کو دی. اپنی طرف سے
پھر سخت چال چلی کہ
دنیا کے نئے نقشے میں پاکستان نہیں ہے. مگر شاید انکو ابھی تک اپنی اوقات پتہ نہیں چلی.
شاید یہ بھول گئے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے. دوستو اپنا قبلہ درست رکھنا.
یہ بھول گئے ہیں مگر آپ اللہ کو اور اسکے احکامات کو نہ بھلانا ڈرنا اور
گھبرانا نہیں. انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ اللہ انکی یہ چال بھی انہی پر
پلٹ دے گا. اور تمام تر دولت، ٹیکنالوجی اور جاسوسوں کے باوجود یہ اسلام کے
دشمن ناکام و نا مراد رہیں گے. انشاء اللہ
بچپن میں نقشہ دیکھ کر ابو سے پوچھتی تھی کہ پاکستان اتنا سا کیوں ہے؟
یہاں بھی مسلمان یہاں بھی مسلمان.
مگر یہ علاقہ پاکستان میں کیوں نہیں؟
قائداعظم تو بہت طاقتور تھے انہوں نے کیوں نہیں لڑائی کی؟
ابو کہتے کہ بس پنجاب اور سندھ میں کچھ فیکٹریاں تھیں. باقی جگہوں پر صرف پہاڑ اور پتھر. انگریزوں نے جان بوجھ کر ایسا علاقہ دیا تاکہ یہاں کچھ بھی نہ ہو. اور پاکستان جلدی ختم ہوجائے. نعوذ باللہ.
دل کڑھتا تھا بلوچستان کو دیکھ کر. میں وہاں کی زمین پر سپورٹس سٹی بنوانا چاہتی تھی. جہاں دنیا کا ہر کھیل ہو. جہاں اولمپکس کرائے جائیں. ابو کہتے کہ وہاں آبادی کم ہے. اب پہاڑ کاٹ کر گیس اور پانی کی پا ئپ لائن بچھائی جائے وہ بھی سو پچاس گھروں کے لئے اتنا خرچہ کیا جائے پھر وہ بل دینے کے بھی خلاف ھیں. اسی وجہ سے کوئی سنجیدہ نہیں ہوتا.
بڑا غصہ آتا تھا. کہ قائداعظم تھوڑا پنجاب کا علاقہ بھی شامل کرا لیتے تو اچھا ہوتا.
مجھے نہیں معلوم تھا کہ پاکستان کا نقشہ کس نے بنایا ہے اور اس طرح بنایا کہ اپنا پیارا نام بھی لکھ دیا. محمد صلی اللہ علیہ وسلم. اور یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بلوچستان کے پہاڑوں میں سونے تیل اور تانبے کے خزانے ہیں.
انگریزوں نے جانے کتنی محنت کتنے سال کی مکاریوں کے بعد پاکستان کا نقشہ دیکھ کر سوچا ھوگا کہ جناح کو بیوقوف بنا دیا. وہ اس نقشے پر خوش ہوگئے.
مگر قرآن میں ہے نہ کہ اللہ بہترین چال چلنے والا ہے؟
انہوں نے اپنی طرف سے بڑی چال چلی. مگر اللہ کے سامنے ہر چال ناکام ھو گئ
.
اب ان کافروں نے نیا نقشہ بنایا ہے. پاکستان کی فوج کو حکومت، عوام اور میڈیا کی مدد اور حمایت سے محروم کر کے تنہا جنگ لڑنے کو دی. اپنی طرف سے پھر سخت چال چلی کہ
دنیا کے نئے نقشے میں پاکستان نہیں ہے. مگر شاید انکو ابھی تک اپنی اوقات پتہ نہیں چلی.
شاید یہ بھول گئے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے. دوستو اپنا قبلہ درست رکھنا. یہ بھول گئے ہیں مگر آپ اللہ کو اور اسکے احکامات کو نہ بھلانا ڈرنا اور گھبرانا نہیں. انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ اللہ انکی یہ چال بھی انہی پر پلٹ دے گا. اور تمام تر دولت، ٹیکنالوجی اور جاسوسوں کے باوجود یہ اسلام کے دشمن ناکام و نا مراد رہیں گے. انشاء اللہ
یہاں بھی مسلمان یہاں بھی مسلمان.
مگر یہ علاقہ پاکستان میں کیوں نہیں؟
قائداعظم تو بہت طاقتور تھے انہوں نے کیوں نہیں لڑائی کی؟
ابو کہتے کہ بس پنجاب اور سندھ میں کچھ فیکٹریاں تھیں. باقی جگہوں پر صرف پہاڑ اور پتھر. انگریزوں نے جان بوجھ کر ایسا علاقہ دیا تاکہ یہاں کچھ بھی نہ ہو. اور پاکستان جلدی ختم ہوجائے. نعوذ باللہ.
دل کڑھتا تھا بلوچستان کو دیکھ کر. میں وہاں کی زمین پر سپورٹس سٹی بنوانا چاہتی تھی. جہاں دنیا کا ہر کھیل ہو. جہاں اولمپکس کرائے جائیں. ابو کہتے کہ وہاں آبادی کم ہے. اب پہاڑ کاٹ کر گیس اور پانی کی پا ئپ لائن بچھائی جائے وہ بھی سو پچاس گھروں کے لئے اتنا خرچہ کیا جائے پھر وہ بل دینے کے بھی خلاف ھیں. اسی وجہ سے کوئی سنجیدہ نہیں ہوتا.
بڑا غصہ آتا تھا. کہ قائداعظم تھوڑا پنجاب کا علاقہ بھی شامل کرا لیتے تو اچھا ہوتا.
مجھے نہیں معلوم تھا کہ پاکستان کا نقشہ کس نے بنایا ہے اور اس طرح بنایا کہ اپنا پیارا نام بھی لکھ دیا. محمد صلی اللہ علیہ وسلم. اور یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بلوچستان کے پہاڑوں میں سونے تیل اور تانبے کے خزانے ہیں.
انگریزوں نے جانے کتنی محنت کتنے سال کی مکاریوں کے بعد پاکستان کا نقشہ دیکھ کر سوچا ھوگا کہ جناح کو بیوقوف بنا دیا. وہ اس نقشے پر خوش ہوگئے.
مگر قرآن میں ہے نہ کہ اللہ بہترین چال چلنے والا ہے؟
انہوں نے اپنی طرف سے بڑی چال چلی. مگر اللہ کے سامنے ہر چال ناکام ھو گئ
.
اب ان کافروں نے نیا نقشہ بنایا ہے. پاکستان کی فوج کو حکومت، عوام اور میڈیا کی مدد اور حمایت سے محروم کر کے تنہا جنگ لڑنے کو دی. اپنی طرف سے پھر سخت چال چلی کہ
دنیا کے نئے نقشے میں پاکستان نہیں ہے. مگر شاید انکو ابھی تک اپنی اوقات پتہ نہیں چلی.
شاید یہ بھول گئے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے. دوستو اپنا قبلہ درست رکھنا. یہ بھول گئے ہیں مگر آپ اللہ کو اور اسکے احکامات کو نہ بھلانا ڈرنا اور گھبرانا نہیں. انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ اللہ انکی یہ چال بھی انہی پر پلٹ دے گا. اور تمام تر دولت، ٹیکنالوجی اور جاسوسوں کے باوجود یہ اسلام کے دشمن ناکام و نا مراد رہیں گے. انشاء اللہ
Wednesday, June 19, 2013
حضرت عمر رضی اللہ تعالہ عنہ کے دور خلافت میں مدینہ میں ایک گویا (singer) تھا جو گایا کرتا تھا طبلہ سارنگی کے بغیر
اس زمانے میں یہ بھی بھت معیوب سمجھا جاتا تھا
جب اس کی عمر 80 سال ھو گئی تو آواز نے ساتھ چھوڑ دیا
اب کوئی اس کا گانا نہیں سنتا تھا
گھر میں فقر و فاقے نے ڈیرے ڈال لئے ایک ایک کر کے گھر کا سارا سامان بِک گیا
آخر تنگ آ کر وہ شخص جنت البقیع میں گیا اور بے اختیار اللہ کو پکارا
کہ
یا اللہ ! اب تو تجھے پکارنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔۔۔۔۔مجھے بھوک ھے
میرے گھر والے پریشان ھیں
یا اللہ ! اب مجھے کوئی نہیں سنتا
تو تو سن
تو تو سن
میں تنگ دست ہوں تیرے سوا میرے حال سے کوئی واقف نہیں
حضرت عمر مسجد میں سو رہے تھے کہ خواب میں آواز آئی
عمر ! اٹھو بھاگو دوڑو ۔۔
میرا ایک بندہ مجھے بقیع میں پکار رہا ہے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ننگے سر ننگے پیر جنت البقیع کی طرف دوڑے
کیا دیکھتے ہیں کہ جھاڑیوں کے پیجھے ایک شخص دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہے
اس نے جب عمر کو آتے دیکھا تو بھاگنے لگا سمجھا کہ مجھے ماریں گے
حضرت عمر نے کہا رکو کہاں جا رہے ہو میرے پاس آؤ
میں تمھاری مدد کے لیے آیا ہوں
وہ بولا آپ کو کس نے بھیجا ہے؟
حضرت عمر نے کہا جیس سے لو لگائے بیٹھے ہو مجھے اس نے تمھاری مدد کے لئے بھیجا ھے
یہ سننا تھا وہ شخص گٹھنوں کے بل گِرا اور اللہ کو پکارا
یا اللہ !
ساری زندگی تیری نا فرمانی کی ،
تجھے بھلائے رکھا
یاد بھی کہا تو روٹی کے لئے
اور تو نے اس پر بھی "لبیک" کہا
اور میری مدد کے لئے اپنے اتنے عظیم بندے کو بھیجا
میں تیرا مجرم ہوں
یا اللہ مجھے معاف کردے
مجھے معاف کردے
یہ کہتے کہتے وہ مر گیا
حضرت عمر رضی اللہ تعالہ عنہ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی
اور اس کے گھر والوں کے لئے بیت المال سے وظیفہ مقرر فرمایا
سبحان اللہ
بے شک اللہ بڑا غفور الرحیم ھے
حضرت عمر رضی اللہ تعالہ عنہ کے دور خلافت میں مدینہ میں ایک گویا (singer) تھا جو گایا کرتا تھا طبلہ سارنگی کے بغیر
اس زمانے میں یہ بھی بھت معیوب سمجھا جاتا تھا
جب اس کی عمر 80 سال ھو گئی تو آواز نے ساتھ چھوڑ دیا
اب کوئی اس کا گانا نہیں سنتا تھا
گھر میں فقر و فاقے نے ڈیرے ڈال لئے ایک ایک کر کے گھر کا سارا سامان بِک گیا
آخر تنگ آ کر وہ شخص جنت البقیع میں گیا اور بے اختیار اللہ کو پکارا
کہ
یا اللہ ! اب تو تجھے پکارنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔۔۔۔۔مجھے بھوک ھے
میرے گھر والے پریشان ھیں
یا اللہ ! اب مجھے کوئی نہیں سنتا
تو تو سن
تو تو سن
میں تنگ دست ہوں تیرے سوا میرے حال سے کوئی واقف نہیں
حضرت عمر مسجد میں سو رہے تھے کہ خواب میں آواز آئی
عمر ! اٹھو بھاگو دوڑو ۔۔
میرا ایک بندہ مجھے بقیع میں پکار رہا ہے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ننگے سر ننگے پیر جنت البقیع کی طرف دوڑے
کیا دیکھتے ہیں کہ جھاڑیوں کے پیجھے ایک شخص دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہے
اس نے جب عمر کو آتے دیکھا تو بھاگنے لگا سمجھا کہ مجھے ماریں گے
حضرت عمر نے کہا رکو کہاں جا رہے ہو میرے پاس آؤ
میں تمھاری مدد کے لیے آیا ہوں
وہ بولا آپ کو کس نے بھیجا ہے؟
حضرت عمر نے کہا جیس سے لو لگائے بیٹھے ہو مجھے اس نے تمھاری مدد کے لئے بھیجا ھے
یہ سننا تھا وہ شخص گٹھنوں کے بل گِرا اور اللہ کو پکارا
یا اللہ !
ساری زندگی تیری نا فرمانی کی ،
تجھے بھلائے رکھا
یاد بھی کہا تو روٹی کے لئے
اور تو نے اس پر بھی "لبیک" کہا
اور میری مدد کے لئے اپنے اتنے عظیم بندے کو بھیجا
میں تیرا مجرم ہوں
یا اللہ مجھے معاف کردے
مجھے معاف کردے
یہ کہتے کہتے وہ مر گیا
حضرت عمر رضی اللہ تعالہ عنہ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی
اور اس کے گھر والوں کے لئے بیت المال سے وظیفہ مقرر فرمایا
سبحان اللہ
بے شک اللہ بڑا غفور الرحیم ھے
اس زمانے میں یہ بھی بھت معیوب سمجھا جاتا تھا
جب اس کی عمر 80 سال ھو گئی تو آواز نے ساتھ چھوڑ دیا
اب کوئی اس کا گانا نہیں سنتا تھا
گھر میں فقر و فاقے نے ڈیرے ڈال لئے ایک ایک کر کے گھر کا سارا سامان بِک گیا
آخر تنگ آ کر وہ شخص جنت البقیع میں گیا اور بے اختیار اللہ کو پکارا
کہ
یا اللہ ! اب تو تجھے پکارنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔۔۔۔۔مجھے بھوک ھے
میرے گھر والے پریشان ھیں
یا اللہ ! اب مجھے کوئی نہیں سنتا
تو تو سن
تو تو سن
میں تنگ دست ہوں تیرے سوا میرے حال سے کوئی واقف نہیں
حضرت عمر مسجد میں سو رہے تھے کہ خواب میں آواز آئی
عمر ! اٹھو بھاگو دوڑو ۔۔
میرا ایک بندہ مجھے بقیع میں پکار رہا ہے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ننگے سر ننگے پیر جنت البقیع کی طرف دوڑے
کیا دیکھتے ہیں کہ جھاڑیوں کے پیجھے ایک شخص دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہے
اس نے جب عمر کو آتے دیکھا تو بھاگنے لگا سمجھا کہ مجھے ماریں گے
حضرت عمر نے کہا رکو کہاں جا رہے ہو میرے پاس آؤ
میں تمھاری مدد کے لیے آیا ہوں
وہ بولا آپ کو کس نے بھیجا ہے؟
حضرت عمر نے کہا جیس سے لو لگائے بیٹھے ہو مجھے اس نے تمھاری مدد کے لئے بھیجا ھے
یہ سننا تھا وہ شخص گٹھنوں کے بل گِرا اور اللہ کو پکارا
یا اللہ !
ساری زندگی تیری نا فرمانی کی ،
تجھے بھلائے رکھا
یاد بھی کہا تو روٹی کے لئے
اور تو نے اس پر بھی "لبیک" کہا
اور میری مدد کے لئے اپنے اتنے عظیم بندے کو بھیجا
میں تیرا مجرم ہوں
یا اللہ مجھے معاف کردے
مجھے معاف کردے
یہ کہتے کہتے وہ مر گیا
حضرت عمر رضی اللہ تعالہ عنہ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی
اور اس کے گھر والوں کے لئے بیت المال سے وظیفہ مقرر فرمایا
سبحان اللہ
بے شک اللہ بڑا غفور الرحیم ھے
Tuesday, June 18, 2013
چار سو کا موبائل اور چالیس کا بیلنس۔ ۔ ۔
وہ خاکروب گٹر سے باہر نکلا تو اس کا سانس پھولا ھوا تھا۔ ۔ پورے محلے کی
تکلیف ختم ھو گئی ۔ ۔ بارش کا پانی تیزی سے گٹر میں جانے لگا ۔ ۔ تماشہ
دیکھنے والے اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ ۔کسی نے مڑ کر اس خاکروب کی جانب
دیکھنا گوارا نہ کیا جس کی وجہ س ان کی پریشانی کا خاتمہ ھوا تھا ۔ ۔ میں
نے دیکھا وہ معصوم ایک طرف بیٹھا اپنے ساتھی سے کوئی بات کر رھا تھا۔ ۔ جی
چاہا اس کا شکریہ ادا کروں اور اس کے کام کی تعریف کروں ۔ میں پاس گیا تو
مجھ سے پہلے بول پڑا: صاحب ایک بات سمجھ نہیں آ رھی۔
کیا؟؟
کہنے لگا : سنا ھے گورنمنٹ نے کمائی پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی ھے؟
میں مسکرایا اور کہا : ہاں لیکن تم پر ٹیکس لاگو نہیں ھوتا ۔ تم تو اتنا کماتے ھی نہیں
اس کی آنکھوں میں حیرت در آئی، کہنے لگا: لیکن مجھ سے تو باقاعدگی سے ٹیکس لیا جاتا ھے
اب حیران ھونے کی باری میری تھی ۔ میں نے کہا وہ کیسے؟
اس نے ایک پرانا اور خستہ حال موبائل نکال کر دکھاتے ھوئے کہا : صاحب 400
کا موبائل لیا تھا ۔ مہینے میں دو بار 20 روپے کا ایزی لوڈ کروا لیتا ھوں
لیکن میرے بیلنس سے ٹیکس کاٹا جاتا ھے۔ میں باقاعدگی سے ٹیکس دیتا ھوں ۔
میں باعزت شہری ھوں ٹیکس چور نہیں ۔ ۔ ۔
میرا سر جھک گیا ۔ ایک گہری
سانس لیتے ھوئے میں نے دھیمے سے لہجے میں کہا: ہاں تم باعزت شہری ھو ٹیکس
چور نہیں ۔ ۔ حکومت تم 400 کے موبائل اور چالیس کے بیلنس پر ٹیکس لیتی ھے ۔
۔ یار تو تم صاحب جائیداد نکلے۔ ۔ معاف کرنا تم پر واقعی ٹیکس لاگو ھوتا
ھے
چار سو کا موبائل اور چالیس کا بیلنس۔ ۔ ۔
وہ خاکروب گٹر سے باہر نکلا تو اس کا سانس پھولا ھوا تھا۔ ۔ پورے محلے کی تکلیف ختم ھو گئی ۔ ۔ بارش کا پانی تیزی سے گٹر میں جانے لگا ۔ ۔ تماشہ دیکھنے والے اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ ۔کسی نے مڑ کر اس خاکروب کی جانب دیکھنا گوارا نہ کیا جس کی وجہ س ان کی پریشانی کا خاتمہ ھوا تھا ۔ ۔ میں نے دیکھا وہ معصوم ایک طرف بیٹھا اپنے ساتھی سے کوئی بات کر رھا تھا۔ ۔ جی چاہا اس کا شکریہ ادا کروں اور اس کے کام کی تعریف کروں ۔ میں پاس گیا تو مجھ سے پہلے بول پڑا: صاحب ایک بات سمجھ نہیں آ رھی۔
کیا؟؟
کہنے لگا : سنا ھے گورنمنٹ نے کمائی پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی ھے؟
میں مسکرایا اور کہا : ہاں لیکن تم پر ٹیکس لاگو نہیں ھوتا ۔ تم تو اتنا کماتے ھی نہیں
اس کی آنکھوں میں حیرت در آئی، کہنے لگا: لیکن مجھ سے تو باقاعدگی سے ٹیکس لیا جاتا ھے
اب حیران ھونے کی باری میری تھی ۔ میں نے کہا وہ کیسے؟
اس نے ایک پرانا اور خستہ حال موبائل نکال کر دکھاتے ھوئے کہا : صاحب 400 کا موبائل لیا تھا ۔ مہینے میں دو بار 20 روپے کا ایزی لوڈ کروا لیتا ھوں لیکن میرے بیلنس سے ٹیکس کاٹا جاتا ھے۔ میں باقاعدگی سے ٹیکس دیتا ھوں ۔ میں باعزت شہری ھوں ٹیکس چور نہیں ۔ ۔ ۔
میرا سر جھک گیا ۔ ایک گہری سانس لیتے ھوئے میں نے دھیمے سے لہجے میں کہا: ہاں تم باعزت شہری ھو ٹیکس چور نہیں ۔ ۔ حکومت تم 400 کے موبائل اور چالیس کے بیلنس پر ٹیکس لیتی ھے ۔ ۔ یار تو تم صاحب جائیداد نکلے۔ ۔ معاف کرنا تم پر واقعی ٹیکس لاگو ھوتا ھے
وہ خاکروب گٹر سے باہر نکلا تو اس کا سانس پھولا ھوا تھا۔ ۔ پورے محلے کی تکلیف ختم ھو گئی ۔ ۔ بارش کا پانی تیزی سے گٹر میں جانے لگا ۔ ۔ تماشہ دیکھنے والے اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ ۔کسی نے مڑ کر اس خاکروب کی جانب دیکھنا گوارا نہ کیا جس کی وجہ س ان کی پریشانی کا خاتمہ ھوا تھا ۔ ۔ میں نے دیکھا وہ معصوم ایک طرف بیٹھا اپنے ساتھی سے کوئی بات کر رھا تھا۔ ۔ جی چاہا اس کا شکریہ ادا کروں اور اس کے کام کی تعریف کروں ۔ میں پاس گیا تو مجھ سے پہلے بول پڑا: صاحب ایک بات سمجھ نہیں آ رھی۔
کیا؟؟
کہنے لگا : سنا ھے گورنمنٹ نے کمائی پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی ھے؟
میں مسکرایا اور کہا : ہاں لیکن تم پر ٹیکس لاگو نہیں ھوتا ۔ تم تو اتنا کماتے ھی نہیں
اس کی آنکھوں میں حیرت در آئی، کہنے لگا: لیکن مجھ سے تو باقاعدگی سے ٹیکس لیا جاتا ھے
اب حیران ھونے کی باری میری تھی ۔ میں نے کہا وہ کیسے؟
اس نے ایک پرانا اور خستہ حال موبائل نکال کر دکھاتے ھوئے کہا : صاحب 400 کا موبائل لیا تھا ۔ مہینے میں دو بار 20 روپے کا ایزی لوڈ کروا لیتا ھوں لیکن میرے بیلنس سے ٹیکس کاٹا جاتا ھے۔ میں باقاعدگی سے ٹیکس دیتا ھوں ۔ میں باعزت شہری ھوں ٹیکس چور نہیں ۔ ۔ ۔
میرا سر جھک گیا ۔ ایک گہری سانس لیتے ھوئے میں نے دھیمے سے لہجے میں کہا: ہاں تم باعزت شہری ھو ٹیکس چور نہیں ۔ ۔ حکومت تم 400 کے موبائل اور چالیس کے بیلنس پر ٹیکس لیتی ھے ۔ ۔ یار تو تم صاحب جائیداد نکلے۔ ۔ معاف کرنا تم پر واقعی ٹیکس لاگو ھوتا ھے
دنیااور آخرت میں کامیابی کیلئے رہنما اصول
ایک بدو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوا اور عرض کیا
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔
فرمایا ہاں کہو ،
دربار میں اسوقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ اُنھوں نے یہ حدیث مبارکہ تحریر کرکے اپنے پاس رکھ لی۔
بدو: میں امیر بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: قناعت اختیار کرو، امیر ہو جاؤ گے۔
بدو: میں سب سے بڑا عالم بننا چاہتا ہوں؟
ٓٓ ارشاد فرمایا: تقویٰ اختیار کرو، عالم بن جاؤ گے۔
بدو: میں عزت والا بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلانے بند کردو، باعزت ہو جاؤ گے۔
بدو: میں اچھا آدمی بننا چاہتاہوں؟
ارشاد فرمایا: لوگوں کو نفع پہنچاؤ۔
بدو: میں عادل بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: جسے اپنے لئے اچھا سمجھو وہی دوسروں کے لئے پسند کرو۔
بدو: میں طاقتور بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: اللہ پر توکل کرو۔
بدو:میں اللہ کے دربار میں خاص (خصوصیت کا) درجہ چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایاکثرت سے ذکر کرو۔
بدو: میں رزق میں کشادگی چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: ہمیشہ باوضو رہو۔
بدو: میں دعاؤں کی قبولیت چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایاحرام نہ کھاؤ۔
بدو: میں ایمان کی تکمیل چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا:اخلاق اچھا کرلو۔
بدو: میں قیامت کے روز اللہ سے گناہوں سے پاک ہو کر ملنا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: جنابت کے فوراً بعد غسل کرو۔
بدو: میں گناہوں میں کمی چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: کثرت سے استغفار کیا کرو۔
بدو: میں قیامت کے روز نور میں اُٹھنا چاہتاہوں؟
ارشاد فرمایا: ظلم کرنا چھوڑ دو۔
بدو: میں چاہتا ہوں اللہ مجھ پر رحم کرے؟
ارشاد فرمایا: اللہ کے بندوں پر رحم کرو۔
بدو:میں چاہتا ہوں، اللہ میری پردہ پوشی کرے؟
ارشاد فرمایا: لوگوں کی پردہ پوشی کرو۔
بدو:میں رسوائی سے بچنا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: زنا سے بچو۔
بدو: میں چاہتا ہوں، اللہ اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب بن جاؤں؟
ارشاد فرمایا:جو اللہ اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب ہو، اُسے اپنا محبوب بنا لو۔
بدو: میں اللہ کا فرمابردار بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: فرائض کا اہتمام کرو۔
بدو: میں احسان کرنے والا بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا:اللہ کی یوں بندگی کرو جیسے تم اُسے دیکھ رہے ہو، یا جیسے ہو تمہیں دیکھ رہا ہے۔
بدو: کیا چیز دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کردے گی؟
ارشاد فرمایا:دنیا کی مصیبتوں پر صبر۔
بدو: اللہ کے غصے کو کیا چیز سرد کرتی ہے؟
ارشاد فرمایا: چپکے چپکے صدقہ اور صلہ رحمی۔
بدو: سب سے بڑی برائی کیا ہے؟
ارشاد فرمایا: بد اخلاقی اور بخل۔
بدو: سب سے بڑی اچھائی کیا ہے؟
ارشاد فرمایا: اچھے اخلاق، تواضع اور صبر۔
بدو:اللہ کے غصے سے بچنا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: لوگوں پر غصہ کرنا چھوڑ دو۔
کنز العمال ۔ مسند احمد
دنیااور آخرت میں کامیابی کیلئے رہنما اصول
ایک بدو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوا اور عرض کیا
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔
فرمایا ہاں کہو ،
دربار میں اسوقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ اُنھوں نے یہ حدیث مبارکہ تحریر کرکے اپنے پاس رکھ لی۔
بدو: میں امیر بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: قناعت اختیار کرو، امیر ہو جاؤ گے۔
بدو: میں سب سے بڑا عالم بننا چاہتا ہوں؟
ٓٓ ارشاد فرمایا: تقویٰ اختیار کرو، عالم بن جاؤ گے۔
بدو: میں عزت والا بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلانے بند کردو، باعزت ہو جاؤ گے۔
بدو: میں اچھا آدمی بننا چاہتاہوں؟
ارشاد فرمایا: لوگوں کو نفع پہنچاؤ۔
بدو: میں عادل بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: جسے اپنے لئے اچھا سمجھو وہی دوسروں کے لئے پسند کرو۔
بدو: میں طاقتور بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: اللہ پر توکل کرو۔
بدو:میں اللہ کے دربار میں خاص (خصوصیت کا) درجہ چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایاکثرت سے ذکر کرو۔
بدو: میں رزق میں کشادگی چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: ہمیشہ باوضو رہو۔
بدو: میں دعاؤں کی قبولیت چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایاحرام نہ کھاؤ۔
بدو: میں ایمان کی تکمیل چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا:اخلاق اچھا کرلو۔
بدو: میں قیامت کے روز اللہ سے گناہوں سے پاک ہو کر ملنا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: جنابت کے فوراً بعد غسل کرو۔
بدو: میں گناہوں میں کمی چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: کثرت سے استغفار کیا کرو۔
بدو: میں قیامت کے روز نور میں اُٹھنا چاہتاہوں؟
ارشاد فرمایا: ظلم کرنا چھوڑ دو۔
بدو: میں چاہتا ہوں اللہ مجھ پر رحم کرے؟
ارشاد فرمایا: اللہ کے بندوں پر رحم کرو۔
بدو:میں چاہتا ہوں، اللہ میری پردہ پوشی کرے؟
ارشاد فرمایا: لوگوں کی پردہ پوشی کرو۔
بدو:میں رسوائی سے بچنا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: زنا سے بچو۔
بدو: میں چاہتا ہوں، اللہ اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب بن جاؤں؟
ارشاد فرمایا:جو اللہ اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب ہو، اُسے اپنا محبوب بنا لو۔
بدو: میں اللہ کا فرمابردار بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: فرائض کا اہتمام کرو۔
بدو: میں احسان کرنے والا بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا:اللہ کی یوں بندگی کرو جیسے تم اُسے دیکھ رہے ہو، یا جیسے ہو تمہیں دیکھ رہا ہے۔
بدو: کیا چیز دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کردے گی؟
ارشاد فرمایا:دنیا کی مصیبتوں پر صبر۔
بدو: اللہ کے غصے کو کیا چیز سرد کرتی ہے؟
ارشاد فرمایا: چپکے چپکے صدقہ اور صلہ رحمی۔
بدو: سب سے بڑی برائی کیا ہے؟
ارشاد فرمایا: بد اخلاقی اور بخل۔
بدو: سب سے بڑی اچھائی کیا ہے؟
ارشاد فرمایا: اچھے اخلاق، تواضع اور صبر۔
بدو:اللہ کے غصے سے بچنا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: لوگوں پر غصہ کرنا چھوڑ دو۔
کنز العمال ۔ مسند احمد
ایک بدو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوا اور عرض کیا
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔
فرمایا ہاں کہو ،
دربار میں اسوقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ اُنھوں نے یہ حدیث مبارکہ تحریر کرکے اپنے پاس رکھ لی۔
بدو: میں امیر بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: قناعت اختیار کرو، امیر ہو جاؤ گے۔
بدو: میں سب سے بڑا عالم بننا چاہتا ہوں؟
ٓٓ ارشاد فرمایا: تقویٰ اختیار کرو، عالم بن جاؤ گے۔
بدو: میں عزت والا بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلانے بند کردو، باعزت ہو جاؤ گے۔
بدو: میں اچھا آدمی بننا چاہتاہوں؟
ارشاد فرمایا: لوگوں کو نفع پہنچاؤ۔
بدو: میں عادل بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: جسے اپنے لئے اچھا سمجھو وہی دوسروں کے لئے پسند کرو۔
بدو: میں طاقتور بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: اللہ پر توکل کرو۔
بدو:میں اللہ کے دربار میں خاص (خصوصیت کا) درجہ چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایاکثرت سے ذکر کرو۔
بدو: میں رزق میں کشادگی چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: ہمیشہ باوضو رہو۔
بدو: میں دعاؤں کی قبولیت چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایاحرام نہ کھاؤ۔
بدو: میں ایمان کی تکمیل چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا:اخلاق اچھا کرلو۔
بدو: میں قیامت کے روز اللہ سے گناہوں سے پاک ہو کر ملنا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: جنابت کے فوراً بعد غسل کرو۔
بدو: میں گناہوں میں کمی چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: کثرت سے استغفار کیا کرو۔
بدو: میں قیامت کے روز نور میں اُٹھنا چاہتاہوں؟
ارشاد فرمایا: ظلم کرنا چھوڑ دو۔
بدو: میں چاہتا ہوں اللہ مجھ پر رحم کرے؟
ارشاد فرمایا: اللہ کے بندوں پر رحم کرو۔
بدو:میں چاہتا ہوں، اللہ میری پردہ پوشی کرے؟
ارشاد فرمایا: لوگوں کی پردہ پوشی کرو۔
بدو:میں رسوائی سے بچنا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: زنا سے بچو۔
بدو: میں چاہتا ہوں، اللہ اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب بن جاؤں؟
ارشاد فرمایا:جو اللہ اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب ہو، اُسے اپنا محبوب بنا لو۔
بدو: میں اللہ کا فرمابردار بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: فرائض کا اہتمام کرو۔
بدو: میں احسان کرنے والا بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا:اللہ کی یوں بندگی کرو جیسے تم اُسے دیکھ رہے ہو، یا جیسے ہو تمہیں دیکھ رہا ہے۔
بدو: کیا چیز دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کردے گی؟
ارشاد فرمایا:دنیا کی مصیبتوں پر صبر۔
بدو: اللہ کے غصے کو کیا چیز سرد کرتی ہے؟
ارشاد فرمایا: چپکے چپکے صدقہ اور صلہ رحمی۔
بدو: سب سے بڑی برائی کیا ہے؟
ارشاد فرمایا: بد اخلاقی اور بخل۔
بدو: سب سے بڑی اچھائی کیا ہے؟
ارشاد فرمایا: اچھے اخلاق، تواضع اور صبر۔
بدو:اللہ کے غصے سے بچنا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: لوگوں پر غصہ کرنا چھوڑ دو۔
کنز العمال ۔ مسند احمد
ایک
صاحب موت سے بہت ڈرتے تھے۔ یہاں تک کہ گھر میں اس لفظ کا استعمال بالکل
بند تھا اگر محلے میں کوئی مَر جاتا تو کہتے ، پیدا ہو گیا ہے۔
ایک روز
گھر میں مہمان آیا۔ ابھی مہمان اور میزبان کے درمیان باتیں ہورہی تھیں کہ
گھریلو ملازم روتا ہوا آیا۔۔۔ مالک نے رونے کی وجہ پوچھی تو وہ نوکر کہنے
لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "میرا باپ پیدا ہوگیا ہے۔"
مہمان نے حیران ہوکر پوچھا۔۔۔۔ "اور تمھاری ماں؟
"
نوکر نے روتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔ "وہ تو دو سال پہلے پیدا ہو گئی تھی۔"
مہمان نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔ "پھر تم کب پیدا ہوئے؟"
نوکر نے کہا۔۔۔ "اگر یہی حال رہا تو میں بھی ایک دن پیدا ہو جاؤں گا۔"
ایک
صاحب موت سے بہت ڈرتے تھے۔ یہاں تک کہ گھر میں اس لفظ کا استعمال بالکل
بند تھا اگر محلے میں کوئی مَر جاتا تو کہتے ، پیدا ہو گیا ہے۔
ایک روز گھر میں مہمان آیا۔ ابھی مہمان اور میزبان کے درمیان باتیں ہورہی تھیں کہ گھریلو ملازم روتا ہوا آیا۔۔۔ مالک نے رونے کی وجہ پوچھی تو وہ نوکر کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "میرا باپ پیدا ہوگیا ہے۔"
مہمان نے حیران ہوکر پوچھا۔۔۔۔ "اور تمھاری ماں؟
"
نوکر نے روتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔ "وہ تو دو سال پہلے پیدا ہو گئی تھی۔"
مہمان نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔ "پھر تم کب پیدا ہوئے؟"
نوکر نے کہا۔۔۔ "اگر یہی حال رہا تو میں بھی ایک دن پیدا ہو جاؤں گا۔"
ایک روز گھر میں مہمان آیا۔ ابھی مہمان اور میزبان کے درمیان باتیں ہورہی تھیں کہ گھریلو ملازم روتا ہوا آیا۔۔۔ مالک نے رونے کی وجہ پوچھی تو وہ نوکر کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "میرا باپ پیدا ہوگیا ہے۔"
مہمان نے حیران ہوکر پوچھا۔۔۔۔ "اور تمھاری ماں؟
"
نوکر نے روتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔ "وہ تو دو سال پہلے پیدا ہو گئی تھی۔"
مہمان نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔ "پھر تم کب پیدا ہوئے؟"
نوکر نے کہا۔۔۔ "اگر یہی حال رہا تو میں بھی ایک دن پیدا ہو جاؤں گا۔"
ایک آدمی نے اپنے گھر فون کیا تو بیوی کی بجائے کسی اجنبی عورت نے فون اٹھایا۔ آدمی بولا “تم کون ہو”۔
عورت بولی “میں نوکرانی ہوں”۔
آدمی بولا “ہمارے گھر میں تو نوکرانی کام نہیں کرتی”۔
نوکرانی بولی “بیگم صاحبہ نے مجھے آج ہی رکھا ہے”۔
آدمی بولا “اچھا، میں اس کا خاوند بول رہا ہوں، میری بیگم کو بلا دو”۔
نوکرانی بولی “بیگم صاحبہ تو اپنے کمرے میں اپنے خاوند کے ساتھ باتیں کر رہی ہیں ”۔
آدمی بولا “اسکا خاوند تو میں ہوں وہ کون ہے ، کیا تم دس لاکھ روپے ابھی کمانا پسند کرو گی”۔
نوکرانی بولی ” ہاں کیوں نہیں، بتاؤ کیا کرنا ہے”۔
آدمی بولا ” نیچے والے کمرے سے گن نکالو اور دونوں حرامیوں کو قتل کر دو”۔
نوکرانی نے کہا ٹھیک ہے ایسے لوگوں کو قتل ہی کردینا چاہیے اور فون ہولڈ
پر رکھ کر چلی گئی ، تھوڑی دیر بعد آدمی نے دو گولیاں چلنے کی آواز سنی
نوکرانی بولی “ میں نے انہیں قتل کردیا ہے ان دونوں کی لاشوں کا اب کیا کروں”۔
آدمی بولا “انہیں گھر کے پیچھے واقع سوئمنگ پول میں پھینک دو”۔
نوکرانی بولی “گھر میں تو سوئمنگ پول نہیں ہے”۔
آدمی نے تھوڑا سوچا اور پھر پوچھا “کیا یہ فلاں نمبر ہے؟”
نوکرانی نے کہا ۔ نہیں
آدمی نے کہا ، سوری رانگ نمبر اور فون بند کردیا
کہتے
ہیں کہ ایک بار چین کے کسی حاکم نے ایک بڑی گزرگاہ کے بیچوں بیچ ایک چٹانی
پتھر ایسے رکھوا دیا کہ گزرگاہ بند ہو کر رہ گئی۔ اپنے ایک پہریدار کو
نزدیک ہی ایک درخت کے پیچھےچھپا کر بٹھا دیا تاکہ وہ آتے جاتے لوگوں کے ردِ
عمل سُنے اور اُسے آگاہ کرے۔
اتفاق سے جس پہلے شخص کا وہاں سے گزر ہوا
وہ شہر کا مشہور تاجر تھا جس نے بہت ہی نفرت اور حقارت سے سڑک کے بیچوں
بیچ رکھی اس چٹان کو دیکھا
، یہ جانے بغیر کہ یہ چٹان تو حاکم وقت نے
ہی رکھوائی تھی اُس نے ہر اُس شخص کو بے نقط اور بے حساب باتیں سنائیں جو
اس حرکت کا ذمہ دار ہو سکتا تھا۔ چٹان کے ارد گرد ایک دو چکر لگائے اور
چیختے ڈھاڑتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی جا کر اعلیٰ حکام سے اس حرکت کی شکایت
کرے گا اور جو کوئی بھی اس حرکت کا ذمہ دار ہوگا اُسے سزا دلوائے بغیر آرام
سے نہیں بیٹھے گا۔
اس کے بعد وہاں سے تعمیراتی کام کرنے والے ایک
ٹھیکیدار کا گزر ہوا ۔ اُس کا ردِ عمل بھی اُس سے پہلے گزرنے والے تاجر سے
مختلف تو نہیں تھا مگر اُس کی باتوں میں ویسی شدت اور گھن گرج نہیں تھی
جیسی پہلے والا تاجر دکھا کر گیا تھا۔ آخر ان دونوں کی حیثیت اور مرتبے میں نمایاں فرق بھی توتھا!
اس کے بعد وہاں سے تین ایسے دوستوں کا گزر ہوا جو ابھی تک زندگی میں اپنی
ذاتی پہچان نہیں بنا پائے تھے اور کام کاج کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔
انہوں نے چٹان کے پاس رک کر سڑک کے بیچوں بیچ ایسی حرکت کرنے والے کو جاہل،
بیہودہ اور گھٹیا انسان سے تشبیہ دی، قہقہے لگاتے اور ہنستے ہوئے اپنے
گھروں کو چل دیئے۔
اس چٹان کو سڑک پر رکھے دو دن گزر گئے تھے کہ وہاں
سے ایک مفلوک الحال اور غریب کسان کا گزر ہوا۔ کوئی شکوہ کیئے بغیر جو بات
اُس کے دل میں آئی وہ وہاں سے گزرنے ولوں کی تکلیف کا احساس تھا اور وہ یہ
چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ پتھر وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ اُس نے وہاں سے گزرنے
والے راہگیروں کو دوسرے لوگوں کی مشکلات سے آگاہ کیا اور انہیں جمع ہو کر
وہاں سے پتھر ہٹوانے کیلئے مدد کی درخواست کی۔ اور بہت سے لوگوں نے مل کر
زور لگاکرچٹان نما پتھر وہاں سے ہٹا دیا۔
اور جیسے ہی یہ چٹان وہاں سے
ہٹی تو نیچے سے ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر اُس میں رکھی ہوئی ایک صندوقچی
نظر آئی جسے کسان نے کھول کر دیکھا تو اُس میں سونے کا ایک ٹکڑا اور خط
رکھا تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ: حاکم وقت کی طرف سے اس چٹان کو سڑک کے
درمیان سے ہٹانے والے شخص کے نام۔ جس کی مثبت اور عملی سوچ نے مسائل پر
شکایت کرنے کی بجائے اُس کا حل نکالنا زیادہ بہتر جانا۔
آپ بھی اپنے گردو نواح میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ کتنے ایسے مسائل ہیں جن کے حل ہم آسانی سے پیدا کر سکتے ہیں!
شکوہ و شکایتیں بند، اور شروع کریں ایسے مسائل کو حل کرنا!
کہتے
ہیں کہ ایک بار چین کے کسی حاکم نے ایک بڑی گزرگاہ کے بیچوں بیچ ایک چٹانی
پتھر ایسے رکھوا دیا کہ گزرگاہ بند ہو کر رہ گئی۔ اپنے ایک پہریدار کو
نزدیک ہی ایک درخت کے پیچھےچھپا کر بٹھا دیا تاکہ وہ آتے جاتے لوگوں کے ردِ
عمل سُنے اور اُسے آگاہ کرے۔
اتفاق سے جس پہلے شخص کا وہاں سے گزر ہوا وہ شہر کا مشہور تاجر تھا جس نے بہت ہی نفرت اور حقارت سے سڑک کے بیچوں بیچ رکھی اس چٹان کو دیکھا
، یہ جانے بغیر کہ یہ چٹان تو حاکم وقت نے ہی رکھوائی تھی اُس نے ہر اُس شخص کو بے نقط اور بے حساب باتیں سنائیں جو اس حرکت کا ذمہ دار ہو سکتا تھا۔ چٹان کے ارد گرد ایک دو چکر لگائے اور چیختے ڈھاڑتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی جا کر اعلیٰ حکام سے اس حرکت کی شکایت کرے گا اور جو کوئی بھی اس حرکت کا ذمہ دار ہوگا اُسے سزا دلوائے بغیر آرام سے نہیں بیٹھے گا۔
اس کے بعد وہاں سے تعمیراتی کام کرنے والے ایک ٹھیکیدار کا گزر ہوا ۔ اُس کا ردِ عمل بھی اُس سے پہلے گزرنے والے تاجر سے مختلف تو نہیں تھا مگر اُس کی باتوں میں ویسی شدت اور گھن گرج نہیں تھی جیسی پہلے والا تاجر دکھا کر گیا تھا۔ آخر ان دونوں کی حیثیت اور مرتبے میں نمایاں فرق بھی توتھا!
اس کے بعد وہاں سے تین ایسے دوستوں کا گزر ہوا جو ابھی تک زندگی میں اپنی ذاتی پہچان نہیں بنا پائے تھے اور کام کاج کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ انہوں نے چٹان کے پاس رک کر سڑک کے بیچوں بیچ ایسی حرکت کرنے والے کو جاہل، بیہودہ اور گھٹیا انسان سے تشبیہ دی، قہقہے لگاتے اور ہنستے ہوئے اپنے گھروں کو چل دیئے۔
اس چٹان کو سڑک پر رکھے دو دن گزر گئے تھے کہ وہاں سے ایک مفلوک الحال اور غریب کسان کا گزر ہوا۔ کوئی شکوہ کیئے بغیر جو بات اُس کے دل میں آئی وہ وہاں سے گزرنے ولوں کی تکلیف کا احساس تھا اور وہ یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ پتھر وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ اُس نے وہاں سے گزرنے والے راہگیروں کو دوسرے لوگوں کی مشکلات سے آگاہ کیا اور انہیں جمع ہو کر وہاں سے پتھر ہٹوانے کیلئے مدد کی درخواست کی۔ اور بہت سے لوگوں نے مل کر زور لگاکرچٹان نما پتھر وہاں سے ہٹا دیا۔
اور جیسے ہی یہ چٹان وہاں سے ہٹی تو نیچے سے ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر اُس میں رکھی ہوئی ایک صندوقچی نظر آئی جسے کسان نے کھول کر دیکھا تو اُس میں سونے کا ایک ٹکڑا اور خط رکھا تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ: حاکم وقت کی طرف سے اس چٹان کو سڑک کے درمیان سے ہٹانے والے شخص کے نام۔ جس کی مثبت اور عملی سوچ نے مسائل پر شکایت کرنے کی بجائے اُس کا حل نکالنا زیادہ بہتر جانا۔
آپ بھی اپنے گردو نواح میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ کتنے ایسے مسائل ہیں جن کے حل ہم آسانی سے پیدا کر سکتے ہیں!
شکوہ و شکایتیں بند، اور شروع کریں ایسے مسائل کو حل کرنا!
اتفاق سے جس پہلے شخص کا وہاں سے گزر ہوا وہ شہر کا مشہور تاجر تھا جس نے بہت ہی نفرت اور حقارت سے سڑک کے بیچوں بیچ رکھی اس چٹان کو دیکھا
، یہ جانے بغیر کہ یہ چٹان تو حاکم وقت نے ہی رکھوائی تھی اُس نے ہر اُس شخص کو بے نقط اور بے حساب باتیں سنائیں جو اس حرکت کا ذمہ دار ہو سکتا تھا۔ چٹان کے ارد گرد ایک دو چکر لگائے اور چیختے ڈھاڑتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی جا کر اعلیٰ حکام سے اس حرکت کی شکایت کرے گا اور جو کوئی بھی اس حرکت کا ذمہ دار ہوگا اُسے سزا دلوائے بغیر آرام سے نہیں بیٹھے گا۔
اس کے بعد وہاں سے تعمیراتی کام کرنے والے ایک ٹھیکیدار کا گزر ہوا ۔ اُس کا ردِ عمل بھی اُس سے پہلے گزرنے والے تاجر سے مختلف تو نہیں تھا مگر اُس کی باتوں میں ویسی شدت اور گھن گرج نہیں تھی جیسی پہلے والا تاجر دکھا کر گیا تھا۔ آخر ان دونوں کی حیثیت اور مرتبے میں نمایاں فرق بھی توتھا!
اس کے بعد وہاں سے تین ایسے دوستوں کا گزر ہوا جو ابھی تک زندگی میں اپنی ذاتی پہچان نہیں بنا پائے تھے اور کام کاج کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ انہوں نے چٹان کے پاس رک کر سڑک کے بیچوں بیچ ایسی حرکت کرنے والے کو جاہل، بیہودہ اور گھٹیا انسان سے تشبیہ دی، قہقہے لگاتے اور ہنستے ہوئے اپنے گھروں کو چل دیئے۔
اس چٹان کو سڑک پر رکھے دو دن گزر گئے تھے کہ وہاں سے ایک مفلوک الحال اور غریب کسان کا گزر ہوا۔ کوئی شکوہ کیئے بغیر جو بات اُس کے دل میں آئی وہ وہاں سے گزرنے ولوں کی تکلیف کا احساس تھا اور وہ یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ پتھر وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ اُس نے وہاں سے گزرنے والے راہگیروں کو دوسرے لوگوں کی مشکلات سے آگاہ کیا اور انہیں جمع ہو کر وہاں سے پتھر ہٹوانے کیلئے مدد کی درخواست کی۔ اور بہت سے لوگوں نے مل کر زور لگاکرچٹان نما پتھر وہاں سے ہٹا دیا۔
اور جیسے ہی یہ چٹان وہاں سے ہٹی تو نیچے سے ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر اُس میں رکھی ہوئی ایک صندوقچی نظر آئی جسے کسان نے کھول کر دیکھا تو اُس میں سونے کا ایک ٹکڑا اور خط رکھا تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ: حاکم وقت کی طرف سے اس چٹان کو سڑک کے درمیان سے ہٹانے والے شخص کے نام۔ جس کی مثبت اور عملی سوچ نے مسائل پر شکایت کرنے کی بجائے اُس کا حل نکالنا زیادہ بہتر جانا۔
آپ بھی اپنے گردو نواح میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ کتنے ایسے مسائل ہیں جن کے حل ہم آسانی سے پیدا کر سکتے ہیں!
شکوہ و شکایتیں بند، اور شروع کریں ایسے مسائل کو حل کرنا!
Subscribe to:
Posts (Atom)