Saturday, June 29, 2013
یہ ایک عبرت ناک واقعہ ان مردوں کے لیے جو ہوس کے پجاری اور ان کالج کی
لڑکیوں کے لیے نصیحت سے پر ہے جو کالج آف هونے پر گیٹ تک سفر نہیں کرتی
بلکہ کالج واش روم میں جاتی ہیں حجاب سیٹ کرنے یا جو بھی مقصد هو
چند ہزار میں کالج کی آیا کو منایا گیا...اسے اس کا کام سمجھایا. بھوک
شاید صحیح غلط میں فرق ختم کردیتی هے... آیا جس کی شاید اپنی بھی جوان
بیٹیاں هوں.. 3 لڑکے کالج کے باہر گھات لگائے کسی شکاری کی ماند انتظار کر
رہے تھے.. جونہی کالج میں گھنٹی بجی لڑکے الرٹ هوگئے.. سب لڑکیاں ایک ایک
کر کے جانے لگی ... بے فکری کا دور زندگی کی بھرپور ہنسی لبوں پر بکھیرے
هوئے کالج خالی هو گیا.
تینوں شیطان صفت لڑکے اندر داخل هوئے آیا
ان کی راہنمائی کرتی هوئی کالج کے قدرے سنسان حصے میں لے آئی... آخری لڑکی
یہی تھی بے هوش کر دیا هے... آیا نے راز داری سے بھوکے شکاریوں کو بتایا
اور چلی گئی...
ہوس کے پجاری نے چمکتی آنکھوں سے واش روم کا تالا
کھولا اور اندر چلا گیا... ایک ایک کر کے سبھی گئے اور هوس کی پیاس بجھا کر
اندر کے جانور کو پرسکون کیا...
آخری لڑکا اندر گیا اور چیخیں
مارتا بال نوچتا ہوا باہر آ گیا اور آ کر ان لڑکوں کو مارنے لگا... کیوں کہ
اندر کوئی اور لڑکی نہیں اس کی اپنی بہن برہنہ حالت میں پڑی تھی...
اندر کوئی اور لڑکی هوتی تو تم بھی وہی کرتا جو ہم کر کے آئے ہیں اپنی بہن
دیکھ کر عزت جاگ گئی تیری... ایک دوست کے یہ فقرے سن کر وه لڑکا اپنے حواس
کھو بیٹھا آج وه لڑکا پاگل خانے میں ہے اور ہوس کے پجاری بھی آزاد گھوم
رہے اور وه آیا ضمیر کے کچوکے سہہ نہ سکی اور سب بتا دیا کہ کیسے اس نے
کالج کے بند هوتے اس لڑکی کو واش روم میں بند کیا...
خدا کے لیے
دوسروں کی بہن ، بیٹی هونے والی بیوی کے ساتھ کچھ کرنے کا سوچنے سے پہلے
اپنی عزت کا سوچ لیا کریں ان کے ساتھ بھی ایسا هو سکتا... اور لڑکیاں بھی
کالج آف هونے پر واش روم جانے سے گریز کریں...
زرا سی بے احتیاطی عمر بھر کا روگ بن جاتا هے
خود بھی پڑھیں اور دوسروں سے بھی ضرور شئر کریں
Monday, June 24, 2013
جاپان
میں بچوں کو پہلی کلاس سے لے کر پنجم کلاس تک ایک مضمون "ایٹی کیٹس "
کےنام سے پڑھایا جاتا ہے اس پیریڈ میں بچہ اخلاق اور دوسروں سے کیسے پیش
آنا ھے؟ یہ سیکھتا ھے ۔
پہلی سے لے کر مڈل یعنی آٹھویں تک بچے کو کہیں فیل نہیں کیاجاتا ۔اس لیے کہ اس عمر میں تعلیم کا مقصد تربیت ،معنی و مفہوم سکھانا اور تعمیر شخصیت ہوتا ھے ۔ صرف رٹنا رٹانا نہیں۔
جاپانی اگرچہ دنیا کی امیر ترین قوموں میں سے ہیں لیکن ان کے گھر میں کوئی خادم اور آیا نہیں ہوتی ۔باپ اور ماں ہی گھر کی دیکھ بھال اور اولاد کی تربیت و تعلیم کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
جاپانی بچے اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر روزانہ15 منٹ تک اپنا مدرسہ صاف کرتے ہیں ۔نتیجہ یہ ہے کہ پوری قوم عجز و انکسار کا پیکر اور صفائی ستھرائی کی شیدائی ہے ۔
جاپانی اسکولوں میں بچے اپنا ٹوتھ برش ساتھ لےجاتے ہیں ۔مدرسہ میں ہی کھانا کھانے کے بعد دانتوں کی صفائی کرتے ہیں ۔اس طرح چھوٹی عمر میں ہی انہیں حفظان صحت کی تعلیم اور تربیت ملتی ہے ۔
مدرسہ کے اساتذہ اور دیگر منتظمین بچوں کے کھانا کھانے سے آدھا گھنٹہ قبل خود یہی کھانا کھاکر چیک کرتے ہیں کہ کھانا ٹھیک ھے یا نہیں ؟ اساتذہ بچوں کو جاپان کا مستقبل سمجھتے ہیں لہذا ان کی صحت کی حفاظت ہمیشہ مقدم رکھتے ہیں۔
جاپان میں صفائی کے عملے کو "ہیلتھ انجینئر " کہا جاتا ھے اور اس کی ماہانہ تنخواہ پانچ ہزار سے آٹھ ہزار ڈالر تک ہوتی ہے ۔اور ان ورکرز کو باقاعدہ ٹیسٹ انٹرویو کے بعد ہی جاب پر رکھا جاتا ھے ۔
ریل گاڑی،ہوٹلز اور بند جگہوں پر موبائل کا استعمال ممنوع ہے ۔ موبائل میں سائلنٹ کی جگہ اخلاق لکھا ہوتا ھے ۔
ریسٹورنٹ میں جائیں تو آپ دیکھیں ہر کوئی اتنا ہی کھانا لے گا جس قدر کہ اس کی ضرورت ھے ۔کوئی فرد پلیٹ میں کھانا نہیں چھوڑتا۔
جاپان میں ریل گاڑیوں کے لیٹ ہونےکا کوئی تصور ہی نہیں ہے ۔ اسی لیے تاخیر کا سالانہ تناسب صرف 7 سیکنڈ ھے ۔جاپانی قوم وقت کی قدر اور قیمت کو اچھی طرح سے جانتی ہے اور ایک ایک سیکنڈ اور منٹ کا پورا پورا حساب رکھتی ہے
پہلی سے لے کر مڈل یعنی آٹھویں تک بچے کو کہیں فیل نہیں کیاجاتا ۔اس لیے کہ اس عمر میں تعلیم کا مقصد تربیت ،معنی و مفہوم سکھانا اور تعمیر شخصیت ہوتا ھے ۔ صرف رٹنا رٹانا نہیں۔
جاپانی اگرچہ دنیا کی امیر ترین قوموں میں سے ہیں لیکن ان کے گھر میں کوئی خادم اور آیا نہیں ہوتی ۔باپ اور ماں ہی گھر کی دیکھ بھال اور اولاد کی تربیت و تعلیم کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
جاپانی بچے اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر روزانہ15 منٹ تک اپنا مدرسہ صاف کرتے ہیں ۔نتیجہ یہ ہے کہ پوری قوم عجز و انکسار کا پیکر اور صفائی ستھرائی کی شیدائی ہے ۔
جاپانی اسکولوں میں بچے اپنا ٹوتھ برش ساتھ لےجاتے ہیں ۔مدرسہ میں ہی کھانا کھانے کے بعد دانتوں کی صفائی کرتے ہیں ۔اس طرح چھوٹی عمر میں ہی انہیں حفظان صحت کی تعلیم اور تربیت ملتی ہے ۔
مدرسہ کے اساتذہ اور دیگر منتظمین بچوں کے کھانا کھانے سے آدھا گھنٹہ قبل خود یہی کھانا کھاکر چیک کرتے ہیں کہ کھانا ٹھیک ھے یا نہیں ؟ اساتذہ بچوں کو جاپان کا مستقبل سمجھتے ہیں لہذا ان کی صحت کی حفاظت ہمیشہ مقدم رکھتے ہیں۔
جاپان میں صفائی کے عملے کو "ہیلتھ انجینئر " کہا جاتا ھے اور اس کی ماہانہ تنخواہ پانچ ہزار سے آٹھ ہزار ڈالر تک ہوتی ہے ۔اور ان ورکرز کو باقاعدہ ٹیسٹ انٹرویو کے بعد ہی جاب پر رکھا جاتا ھے ۔
ریل گاڑی،ہوٹلز اور بند جگہوں پر موبائل کا استعمال ممنوع ہے ۔ موبائل میں سائلنٹ کی جگہ اخلاق لکھا ہوتا ھے ۔
ریسٹورنٹ میں جائیں تو آپ دیکھیں ہر کوئی اتنا ہی کھانا لے گا جس قدر کہ اس کی ضرورت ھے ۔کوئی فرد پلیٹ میں کھانا نہیں چھوڑتا۔
جاپان میں ریل گاڑیوں کے لیٹ ہونےکا کوئی تصور ہی نہیں ہے ۔ اسی لیے تاخیر کا سالانہ تناسب صرف 7 سیکنڈ ھے ۔جاپانی قوم وقت کی قدر اور قیمت کو اچھی طرح سے جانتی ہے اور ایک ایک سیکنڈ اور منٹ کا پورا پورا حساب رکھتی ہے
ترکستان
کا بادشاہ لمبی عمر کا خواہاں تھا‘ وہ مرنا نہیں چاہتا تھا‘ اس کے طبیبوں
نے بتایا‘ ہندوستان کی سرزمین پر چند ایسی جڑی بوٹیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں
آب حیات کی تاثیر ہے‘ آپ اگر وہ جڑی بوٹیاں منگوا لیں تو ہم آپ کو ایک
ایسی دواء بنا دیں گے جس کے کھانے کے بعد آپ جب تک چاہیں گے زندہ رہیں گے‘
ترکستان کے بادشاہ نے دس لوگوں کا ایک وفد تیار کیا اور یہ وفد ہندوستان کے
راجہ کے پاس بھجوا دیا‘ اس وفد میں ترکستان کے طبیب بھی شامل تھے اور
بادشاہ کے انتہائی قریبی مشیر بھی‘ وفد نے ہندوستان کے راجہ ک
و ترک بادشاہ
کا پیغام پہنچا دیا‘ راجہ نے پیغام پڑھا‘ قہقہہ لگایا‘ سپاہی بلوائے اور
وفد کو گرفتار کروا دیا‘ راجہ گرفتاری کے بعد انھیں سلطنت کے ایک بلند
وبالا پہاڑ کے قریب لے گیا‘ اس نے پہاڑ کے نیچے خیمہ لگوایا‘ ان دس لوگوں
کو اس خیمے میں بند کروایا اور اس کے بعد حکم جاری کیا‘ جب تک یہ پہاڑ نہیں
گرتا‘ تم لوگ اس جگہ سے کہیں نہیں جا سکتے‘ تم میں سے جس شخص نے یہاں سے
نکلنے کی کوشش کی اس کی گردن مار دی جائے گی۔
راجہ نے اپنا فوجی دستہ وہاں چھوڑا اور واپس شہر آگیا‘ ترکستانی
وفد کو اپنی موت صاف نظر آنے لگی‘ وہ پہاڑ کو اپنی مصیبت سمجھنے لگے‘ مشکل
کی اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی حامی ‘ کوئی ناصر نہیں تھا‘
وہ زمین پر سجدہ ریز ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑانے لگے‘ وہ صرف
کھانا کھانے‘ واش روم جانے یا پھر وضو کرنے کے لیے سجدے سے اٹھتے تھے اور
پھر اللہ سے مدد مانگنے کے لیے سجدے میں گر جاتے تھے‘ اللہ تعالیٰ کو ان پر
رحم آ گیا چنانچہ ایک دن زلزلہ آیا‘ زمین دائیں سے بائیں ہوئی‘ پہاڑ جڑوں
سے ہلا اور چٹانیں اور پتھر زمین پر گرنے لگے‘ ان دس لوگوں اور سپاہیوں نے
بھاگ کر جان بچائی‘ راجہ کے سپاہی دس لوگوں کو لے کر دربار میں حاضر ہو
گئے‘ انھوں نے راجہ کو سارا ماجرا سنا دیا‘ راجہ نے بات سن کر قہقہہ لگایا
اور اس کے بعد ان دس ایلچیوں سے کہا‘ آپ لوگ اپنے بادشاہ کے پاس جاؤ‘ اسے
یہ واقعہ سناؤ اور اس کے بعد اسے میرا پیغام دو‘ اسے کہو ’’ دس لوگوں کی
بددعا جس طرح پہاڑ کو ریزہ کر سکتی ہے بالکل اسی طرح دس بیس لاکھ عوام کی
بددعائیں بادشاہ کی زندگی اور اقتدار دونوں کو ریت بنا سکتی ہیں‘ تم اگر
لمبی زندگی اور طویل اقتدار چاہتے ہو تو لوگوں کی بددعاؤں سے بچو‘ تمہیں
کسی دواء‘ کسی بوٹی کی ضرورت نہیں رہے گی‘‘۔
Subscribe to:
Posts (Atom)