Tuesday, June 18, 2013

چار سو کا موبائل اور چالیس کا بیلنس۔ ۔ ۔
وہ خاکروب گٹر سے باہر نکلا تو اس کا سانس پھولا ھوا تھا۔ ۔ پورے محلے کی تکلیف ختم ھو گئی ۔ ۔ بارش کا پانی تیزی سے گٹر میں جانے لگا ۔ ۔ تماشہ دیکھنے والے اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ ۔کسی نے مڑ کر اس خاکروب کی جانب دیکھنا گوارا نہ کیا جس کی وجہ س ان کی پریشانی کا خاتمہ ھوا تھا ۔ ۔ میں نے دیکھا وہ معصوم ایک طرف بیٹھا اپنے ساتھی سے کوئی بات کر رھا تھا۔ ۔ جی چاہا اس کا شکریہ ادا کروں اور اس کے کام کی تعریف کروں ۔ میں پاس گیا تو مجھ سے پہلے بول پڑا: صاحب ایک بات سمجھ نہیں آ رھی۔
کیا؟؟
کہنے لگا : سنا ھے گورنمنٹ نے کمائی پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی ھے؟
میں مسکرایا اور کہا : ہاں لیکن تم پر ٹیکس لاگو نہیں ھوتا ۔ تم تو اتنا کماتے ھی نہیں
اس کی آنکھوں میں حیرت در آئی، کہنے لگا: لیکن مجھ سے تو باقاعدگی سے ٹیکس لیا جاتا ھے
اب حیران ھونے کی باری میری تھی ۔ میں نے کہا وہ کیسے؟
اس نے ایک پرانا اور خستہ حال موبائل نکال کر دکھاتے ھوئے کہا : صاحب 400 کا موبائل لیا تھا ۔ مہینے میں دو بار 20 روپے کا ایزی لوڈ کروا لیتا ھوں لیکن میرے بیلنس سے ٹیکس کاٹا جاتا ھے۔ میں باقاعدگی سے ٹیکس دیتا ھوں ۔ میں باعزت شہری ھوں ٹیکس چور نہیں ۔ ۔ ۔
میرا سر جھک گیا ۔ ایک گہری سانس لیتے ھوئے میں نے دھیمے سے لہجے میں کہا: ہاں تم باعزت شہری ھو ٹیکس چور نہیں ۔ ۔ حکومت تم 400 کے موبائل اور چالیس کے بیلنس پر ٹیکس لیتی ھے ۔ ۔ یار تو تم صاحب جائیداد نکلے۔ ۔ معاف کرنا تم پر واقعی ٹیکس لاگو ھوتا ھے

No comments:

Post a Comment