Thursday, July 25, 2013

ساکھ بچنی چاہیے



اس خاتون سے ہوائی اڈے پر جہاز کے انتظار میں وقت ہی نہیں کٹ پا رہا تھا۔ کچھ سوچ کر دکان سے جا کر وقت گزاری کیلئے ایک کتاب اور کھانے کیلئے بسکٹ کا ڈبہ خریدا۔ واپس انتظار گاہ میں جا کر کتاب پڑھنا شروع کی۔ اس عورت کے ساتھ ہی دوسری کرسی پر ایک اور مسافر بیٹھا کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا۔ ان دونوں کے درمیان میں لگی میز پر رکھے بسکٹ کے ڈبے سے جب خاتون نے بسکٹ اٹھانے کیلئے ہاتھ بڑھایا تو اسے یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ اس ساتھ بیٹھے مسافر نے بھی اس ڈبے سے ایک بسکٹ اٹھا لیا تھا۔ خاتون کا غصے کے مارے برا حال ہو رہا تھا، اس کا بس نہیں چل رہا تھا، ورنہ تو وہ اُس کے منہ پر اس بے ذوقی اور بے ادبی کیلئے تھپڑ تک مارنے کا سوچ رہی تھی۔
اس کی حیرت اس وقت دو چند ہوگئی جب اس نے دیکھا کہ جیسے ہی وہ ڈبے سے ایک بسکٹ اٹھاتی وہ مسافر بھی ایک بسکٹ اٹھا لیتا۔ غصے سے بے حال وہ اپنی جھنجھلاہٹ پر بمشکل قابو رکھ پا رہی تھی۔
جب ڈبے میں آخری بسکٹ آن بچا تو اب اس کے دل میں یہ بات جاننے کی شدید حسرت تھی کہ اب یہ بد تمیز اور بد اخلاق شخص کیا کرے گا، کیا وہ اب بھی اس آخری بسکٹ کی طرف ہاتھ بڑھائے گا یا یہ آخری بسکٹ اس کیلئے رکھ چھوڑے گا؟
تاہم اس کی حیرت اپنے عروج پر جا پہنچی جب مسافر نے اس آخری بسکٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آدھا خود اٹھا لیا اور آدھا اس کیلئے چھوڑ دیا تھا۔ خاتون کیلئے اس سے بڑھ کر اہانت کی گنجائش نہیں رہتی تھی۔ آدھے بسکٹ کو وہیں ڈبے میں چھوڑ کر، کتاب کو بند کرتے ہوئے، اٹھ کر غصے سے پاؤں پٹختی امیگریشن سے ہوتی ہوئی جہاز کی طرف چل پڑی۔
جہاز میں کرسی پر بیٹھ کر اپنے دستی تھیلے کو اس میں سے عینک نکالنے کیلئے کھولا تو یہ دیکھ کر حیرت سے اس کی جان ہی نکل گئی کہ اس کا خریدا ہوا بسکٹ کا ڈبہ تو جوں کا توں تھیلے میں بند رکھا ہوا تھا۔
ندامت اور شرمندگی سے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔ اسے اب پتہ چل رہا تھا کہ وہ ہوائی اڈے پر بسکٹ اس شخص کے ڈبے سے نکال کر کھاتی رہی تھی۔
اب دیر سے اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ شخص کس قدر ایک مہذب اور رحمدل انسان تھا، جس نے کسی شکوے اور ہچکچاہٹ کے بغیر اپنے ڈبے سے اسے بسکٹ کھانے کو دیئے تھے۔ وہ جس قدر اس موضوع پر سوچتی اسی قدر شرمدنگی اور خجالت بڑھتی جا رہی تھی۔
اس شرمندگی اور خجالت کا اب مداوا کیا ہو سکتا تھا، اس کے پاس نا تو اتنا وقت تھا کہ جا کر اس آدمی کو ڈھونڈھے، اس سے معذرت کرے، اپنی بے ذوقی اور بے ادبی کی معافی مانگے، یا اس کی اعلٰی قدری کا شکریہ ادا کرے۔ بے چینی سے نا تو اسے مناسب الفاظ مل پارہے تھے جن سے اس شخص کو تعبیر کرتی اور سفر کی مجبوری اسے کہیں جانے نہیں دے رہی تھی۔
جی ہاں، چار باتیں ایسی ہیں جن کے بگاڑ کی اصلاح بعد میں نہیں ہو سکتی؛ 1: کمان سے نکلا تیر 2: زبان سے نکلے ہوئے الفاظ 3: موقع ہاتھ سے نکل جانے کے بعد 4: وقت گزر جانے کے بعد
 

Friday, July 19, 2013

ایک نوجوان کا گزر ایک فقیر کے پاس سے ہوا اس نے رک کر اُسے کچھ دینا چاہالیکن جب جیب میں ہاتھ ڈالا . . اسے پتہ چلا کہ بٹوا وہ گھر بھول آیا ہےاُس نے فقیر سے معذرت کرتے ہوئے کہا : معاف کرنا بڑے میاں !!میں بٹوا گھر چھوڑ آیا ہوں . . ان شا ء اللہ میں ابھی لیکر آتا ہوںفقیر نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا : بیٹا تم نے مجھے سب سے زیادہ دیا ہےلڑکا حیران و ششدر ہو کر : لیکن بڑے میاں میں نے تو آپ کو کچھ نہیں دیا ۔ فقیر نے کہا :تم نے مجھ سے معذرت کی مجھے عزت و تکریم دی اور ...ایسے کبھی بھی مجھے کسی نے مخاطب نہیں کیااور یہ میرے نزدیک روپے پیسے سے زیادہ اہم اور عزیز ہے

اے اللہ ! ! ہماری مدد فرما کہ ہم جو بھی کلمہ زبان سے نکالیں اس کی قدر وقیمت کا اندازہ ہمیں اندازہ اور احساس بھی ہواور اے ہمارے رب نیکی کے کاموں میں ہماری مدد فرما

Sunday, July 14, 2013


اُس نے گاڑی پوسٹ آفس کے باہر روک دی،"ابا یہ لیجیے آپ یہ 100 روپے رکھ لیجیے جب پینشن لے چکیں گے تو رکشے میں گھر چلے جائیے گا،مجھے دفتر سے دیر ہو رہی ہے"۔۔بوڑھے باپ کو اُتار کر وہ تیزی سے گاڑی چلاتا ہوا آگے نکل گیا،افضل چند لمحے بیٹے کی دور جاتی ہوئی گاڑی کو دیکھتا رہا پھر ایک ہاتھ میں پینشن کے کاغذ اور ایک ہاتھ میں بیٹے کا دیا ہوا سو روپے کا نوٹ پکڑے وہ اُس لمبی سی قطار کے آخرمیں جا کر کھڑا ہو گیا جس میں اُسی جیسے بہت سے بوڑھے کھڑے تھے، سب کے چہروں پر عمر رفتہ کے نشیب و فراز پرانی قبروں پر لگے دُھندلے کتبوں کی مانند کندہ تھے۔ آج پینشن لینے کا دن تھا، قطار لمبی ہوتی جارہی تھی،پوسٹ آفس کی جانب سے پینشن کی رقم ادا کرنے کا عمل خاصا سست تھا۔ سورج آگ برساتا تیزی سے منزلیں طے کرنے میں مصروف تھا، بے رحم تپتی دھوپ بوڑھوں کو بے حال کرنے لگی، کچھ اُدھر ہی قطار میں ہی بیٹھ گئے، افضل بھی بے حال ہونے لگا، اُس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا اور لڑکھڑا کر اُدھر قطار میں ہی بیٹھ گیا، اچانک ذہن کے پردے پر اپنے بیٹے کا بچپن ناچنے لگا، وہ جب کبھی اچھلتے کودتے گر جاتا تو وہ کیسے دوڑ کر اُسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیتا تھا، اس کے کپڑوں سے دھول جھاڑتا، اُس کے آنسو نکلنے سے پہلے ہی اُسے پچکارتا، پیار کرتا، مگر آج وہ خود لڑکھڑا کر دھول میں لتھڑ رہا تھا اور اُسے اٹھانے والا اُسے یہاں اس طرح چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ وہ مٹھی کھول کر100 روپے کے اس نوٹ کو دیکھنے لگا جو صبح بیٹا اُس کے ہاتھ میں تھما کر چلا گیا تھا، وہ سوچنے لگا کہ ساری عمر ایمانداری سے ملازمت کر کے، بیٹے کو پڑھا لکھا کر، اُس کی شادی کر کے کیا اُس کی زندگی کا سفر اس 100 روپے کے نوٹ پر آ کر ختم ہو گیا ہے؟ پسینہ اور آنکھوں سے بہتے آنسو چہرے کی جُھریوں میں ایک ساتھ سفر کرتےہوئے زمین پر ٹپکے اور دھول اوڑھ کر اپنا وجود کھو بیٹھے، اُسے لمبی قطار دیکھ کر اب ایسا محسوس ہونے لگا جیسے کانٹوں بھرے راستوں پر ابھی مزید سفر باقی ہے

Wednesday, July 10, 2013

معاف کرنے والے انسان کو الله بھی بہت پسند کرتا ہے۔


معاف کرنے والے انسان کو الله بھی بہت پسند کرتا ہے۔

ایک مرتبہ ہمارے ایک ٹیچر نے ہم سے ہر ایک کو پلاسٹک کا ایک شفاف تھیلا اور آلوؤں کی ایک بوری لانے کو کہا
جب ہم تھیلا اور بوری لے آئے تو ٹیچر نے کہا ہم ہر اس فرد کے نام پر جسے ہم نے اپنی زندگی میں معاف نہیں کیا، ایک ایک آلو چن لیں اور اس آلو پر اس فرد کا نام اور تاریخ لکھ کر اسے پلاسٹک کے تھیلے میں ڈالتے جائیں-
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں ہم میں سے چند کے تھیلے خاصے بھاری ہو گئے-
پھر ہم سے کہا گیا کہ ہم اس تھیلے کو ایک ہفتے کے لئے ہر جگہ اپنے ساتھ ساتھ لئے پھریں-
رات کو سوتے وقت اس تھیلے کو اپنے بیڈ کے ساتھ رکھیں، ڈرائیونگ کرتے وقت اسے اپنی کار کی نشست کے پاس رکھیں، جب کام کر رہے ہوں تو اسے اپنی میز کے برابر رکھیں-
اس تھیلے کو ساتھ ساتھ گھسیٹے پھرنا ایک آزار ہو گیا اور پھر ہر وقت اس پر توجہ دینی پڑتی تھی کہ کہیں بھول نہ جائیں-
بعض اوقات تو اسے ساتھ لئے ایسی جگہوں پر جانا پڑتا تھا کہ ہمیں بے حد شرمندگی ہوتی تھی-
بعڞ مقامات پر اسے چھوڑ کر بھی خفت اٹھانا پڑتی تھی-
قدرتی طور پر آلوؤں کی حالت خراب ہونے لگی-
وہ پلپلے اور بدبودار ہونے لگے-
تب ہم پر آشکار ہوا کہ روحانی طور پر ہم اپنے آپ پر کیا وزن لادے پھر رہے ہیں-
یہ اس بات کا ایک زبردست استعارہ تھا کہ ہم اپنی تکلیف اور اپنی منفی سوچ کی کیا قیمت چکا رہے ہیں-
ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ معاف کر دینا دوسرے فرد کے لئے ایک تحفہ ہے-
اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے-
لیکن ساتھ ہی واضح طور پر یہ ہمارے لئے بھی ایک تحفہ ہے! سو اگلی مرتبہ جب آپ کسی کو معاف نہ کرنے کا فیصلہ کریں تو اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ کیا میرا تھیلا پہلے سے خاصہ بھاری بھرکم نہیں ہو گیا؟
اور پھر جب آپ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں تو اگر کسی نے آپ کی دل آزاری کی ہے اور آپ نے اسے معاف نہیں کیا تھا تو اسے معاف کر دیں تا کہ الله تعالیٰ آپ کے گناہوں کو بھی معاف کر دے-
معاف کرنے والے انسان کو الله بھی بہت پسند کرتا ہے۔

Tuesday, July 9, 2013

▀••▄•• جسم کا اہم ترین حصہ ••▄••▀

▀••▄•• جسم کا اہم ترین حصہ ••▄••▀

میری ماں مجھ سے اکثر پوچھتی تھی کہ “بتاؤ! جسم کا اہم ترین حصہ کونسا ہے؟”

میں سال ہا سال اس کے مختلف جواب یہ سوچ کر دیتا رہا کہ شاید اب کے میں صحیح جواب تک پہنچ گیا ہوں-

جب میں چھوٹا تھا تو میرا خیال تھا کہ آواز ہمارے لیۓ بہت ضروری ہے، لہذا میں نے کہا ” امی! میرے کان”

انہوں نے کہا “نہیں- دنیا میں بہت سے لوگ بہرے ہیں- تم مزید سوچو میں تم سے پھر پوچھوں گی-”

بہت سے سال گزرنے کے بعد انہوں نے پھر پوچھا!

میں نے پہلے سے زیادہ ذہن پر زور دیا اور بتایا کہ “امی! نظر ہر ایک کے لیۓ بہت ضروری ہے لہذا اس کا جواب آنکھیں ہونا چاہیۓ”

انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا “تم تیزی سے سیکھ رہے ہو، لیکن یہ جواب صحیح نہیں ہے کیونکہ دنیا میں بہت سے لوگ اندھے ہیں”

پھر ناکامی ہوئی اور میں مزید علم کی تلاش میں مگن ہو گیا- اور پھر بہت سے سال گزرنے کے بعد میری ماں نے کچھ اور دفعہ یہی سوال دہرایا اور ہمیشہ کہ طرح ان کا جواب یہی تھا کہ “نہیں- لیکن تم دن بدن ہوشیار ہوتے جا رہے ہو-”

پھر ایک سال میرے دادا وفات پا گئے- ہر کوئی غمزدہ تھا- ہر کوئی رو رہا تھا- یہاں تک کہ میرے والد بھی روئے- یہ مجھے خاص طور پر اس لیۓ یاد ہے کہ میں نے کبھی انھیں روتے نہیں دیکھا تھا-

جب جنازہ لے جانے کا وقت ہوا تو میری ماں نے پوچھا “کیا تم جانتے ہو کہ جسم کا سب سے اہم حصہ کونسا ہے؟-”

مجھے بہت تعجب ہوا کہ اس موقع پر یہ سوال! میں تو ہمیشہ یہی سمجھتا تھا کہ یہ میرے اور میری ماں کے درمیان ایک کھیل ہے-

انہوں نے میرے چہرے پر عیاں الجھن کو پڑھ لیا اور کہا!
“یہ بہت اہم سوال ہے- یہ ظاہر کرتا ہے کہ تم اپنی زندگی میں کھوۓ ہوئے ہو- ہر وہ جواب جو تم نے مجھے دیا وہ غلط تھا اور اس کی وجہ بھی میں نے تمہیں بتائی کہ کیوں- لیکن آج وہ دن ہے جب تمہیں یہ اہم سبق سیکھنا ہے”

انہوں نے ایک ماں کی نظر سے مجھے دیکھا اور میں نے ان کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں دیکھیں- انہوں نے کہا! “بیٹا! جسم کا اہم ترین حصہ کندھے ہیں-”

میں نے پوچھا! “کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے میرے سر کو اٹھا رکھا ہے؟”

انہوں نے کہا کہ “نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کا کوئی پیارا کسی تکلیف میں رو رہا ہو تو یہ اس کے سر کو سہارہ دے سکتے ہیں- ہر کسی کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ان کندھوں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے- میں صرف یہ امید اور دعا کر سکتی ہوں کہ تمہاری زندگی میں بھی وہ پیارے اور مخلص لوگ ہوں، کہ ضرورت پڑنے پر جن کے کندھے پر تم سر رکھ کر رو سکو-

یہ وہ وقت تھا کہ جب میں نے سیکھا کہ جسم کا اہم ترین حصہ خودغرض نہیں ہو سکتا- یہ دوسروں کے لیۓ بنا ہے- یہ دوسروں کے دکھ درد کا ساتھی اور ہمدرد ہے-

دوستو! لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ آپ نے کیا کہا- لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آپ نے کیا کیا- لیکن لوگ یہ کبھی نہیں بھول سکتے کہ آپ نے انھیں کیسا محسوس کرایا

میرا تو گھر اجڑتے اجڑتے بچا

پی ٹی سی ایل فون کے عروج کے دور میں ایک مسلئہ جو اکثر لوگوں کے ساتھ پیش آتا وہ رانگ نمبر تھا ، بعض دفعہ تو ایسی دلچسپ صورت پیش آتی کہ انسان مسکرانے پر مجبور ہو جاتا ہے
ایک صاحب کے ساتھ ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جو انکی زبانی پیش خدمت ہے
ایک دن اپنی بیگم کو اُس کی خالہ کی وفات کی اطلاع دینے کے لئے گھر فون کیا تو ایک اجنبی نسوانی آواز سُنائی دی۔ہم نے اپنی بیگم کے متعلق استفسار کیا تو جواب میں سوری رانگ نمبر سنائی دیا اور فون بند ہو گیا۔
دوبارہ کوشش کی تو وہی محترمہ بولیں ۔۔۔ ۔اس دفعہ اُن کی آواز میں خاصی خفگی تھی پھر سوری رانگ نمبر کہتے ہوئے غصے سے فون کا ریسیور پٹخ‌ دیا۔تیسری مرتبہ جو ڈائل کیا تو کافی دیر کے بعد وہی تلخ آواز میرے کانوں میں گونجی۔میں نے معذرت کرنا چاہی تو اُن معزز خاتون نے بے نقط سُنانی شروع کر دیں۔۔۔ ۔۔
تمہارے گھر میں ماں بہن نہیں ہے ؟ کمینے ذلیل “ وغیرہ ۔۔۔ ۔میں نے انتہائی صبر کے ساتھ تمام خرافات سُنیں ۔پھر جب اُس نے سانس لینے کے لئے گفتگو ایک لمحے کے لئے بند کی میں نے نہایت انکساری سے عرض کیا۔۔
اے محترم خاتون ! میں ایک عزت دار آدمی ہوں ،اپنی بیگم کو اُس کی اکلوتی خالہ کے انتقال پُر ملال کی خبر سُنانا تھی مگر محکمہ ٹیلیفون کی ستم ظریفی کی بدولت آپ سے گالیاں بھی کھائیں ،بے عزت بھی ہوا،مگر اپنی بیگم کو یہ منحوس خبر نہ سُنا سکا۔آپ بے شک اور گالیاں دے لیں لیکن خدا کے لئے ذرا میری بیوی کو فلاں نمبر پر فون کر کے یہ اطلاع دے دیں۔میں آپ کا بے حد احسان مند ہوں گا۔یہ سُن کر وہ محترمہ پسیج گئیں اور پھر معذرت کرتے ہوئے میری بیگم کو مطلع کرنے کی حامی بھر لی۔
تھوڑی دیر بعد میرے فون کی گھنٹی بجی تو ہماری بیگم انتہائی غصیلی آواز میں بولیں میں پوچھتی ہوں وہ چنڈال کون تھی جس کے ذریعے اب پیام بازی ہو رہی ہے ؟
میری خالہ فوت ہو گئی تھی مگر تمہاری زبان تو سلامت تھی۔۔اُس اپنی کچھ لگتی کو کیوں زحمت دی ؟
میں یہ سُن کر سکتے میں آگیا۔اب میں اُسے کیسے سمجھاتا کہ اُس نیک سیرت عورت نے تو مجھ پر احسان کرکے میری مشکل آسان کی تھی اور بجائے اُس کا شکریہ ادا کرنے کے ہماری بیگم نے اُسے بھی ضرور کچھ نہ کچھ کہہ ڈالا ہوگا۔آخر ہم نے گھر جا کر بڑی مشکل کے بعد بیگم کو اصل صورتِ حال سے آگاہ کرکے اُس کی غلط فہمی دور کی۔
اور ٹیلی فون کے محکمے کے حق میں دعا کی کہ اللہ انہیں اپنا قبلہ درست کرنے کی توفیق دے ۔ انکی وجہ سے میرا تو گھر اجڑتے اجڑتے بچا

Monday, July 8, 2013

آسمان و زمین کے چرخہ کو چلانے والا ایک ہی خدا ھے

ایک عالِم نے ایک بُڑھیا کو چرخہ کاتتے دیکھ کر فرمایا.. " اے بُڑھیا! ساری عُمر چرخہ ہی
کاتا ھے یا کچھ اپنے خدا کی بھی پہچان کی ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ "
بُڑھیا نے جواب دیا ۔۔۔۔ بیٹا مَیں نے تمہاری طرح موٹی موٹی کتابیں تو نہیں پڑھیں مگر ۔۔۔۔۔ " سب کچھ اِسی چرخہ میں دیکھ لیا.. "
فرمایا.. " بڑی بی! یہ تو بتاؤ کہ خدا موجود ھے یا نہیں..؟ "
بُڑھیا نے جواب دیا.. " ہاں ۔۔۔۔۔۔ ہر گھڑی اور رات دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر وقت ایک زبردست خدا موجود ھے.. "
عالِم نے فرمایا.. " مگر اس کی کوئی دلیل بھی ھے تمہارے پاس ..؟ "

بُڑھیا بولی.. " دلیل ھے ۔۔۔۔۔ یہ میرا چرخہ.. "
عالِم نے پوچھا.. " یہ معمولی سا چرخہ کیسے..؟ "
وہ بولی ۔۔۔۔۔۔۔ " وہ ایسے کہ جب تک مَیں اس چرخہ کو چلاتی رہتی ہُوں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ برابر چلتا
رہتا ھے ۔۔۔۔۔ اور جب مَیں اسے چھوڑ دیتی ہُوں ۔۔۔۔۔۔ تب یہ ٹھہر جاتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جب اس
چھوٹے سے چرخہ کو ہر وقت چلانے والے کی لازماً ضرورت ھے ۔۔۔۔۔۔۔ تو اِتنی بڑی کائنات یعنی زمین و آسمان ، چاند ، سورج کے اتنے بڑے چرخوں کو کس طرح چلانے والے کی ضرورت نہ ہو گی ۔۔۔۔۔۔ ؟
پس جس طرح میرے کاٹھ کے چرخہ کو ایک چلانے والا چاہیے ۔۔۔۔۔۔ اسی طرح زمین و آسمان
کے چرخہ کو ایک چلانے والا چاہیے ۔۔۔۔۔۔ جب تک وہ چلاتا رہے گا ۔۔۔۔۔۔ یہ سب چرخے چلتے
رہیں گے ۔۔۔۔۔۔ اور جب وہ چھوڑ دے گا ۔۔۔۔۔۔ تو یہ ٹھہر جائیں گے ۔۔۔۔۔۔ مگر ہم نے کبھی زمین
و آسمان ، چاند سورج کو ٹھہرے ہوئے نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جان لیا کہ ان کا چلانے والا ہر گھڑی موجود ھے.. "

عالم نے سوال کیا.. " اچھا یہ بتاؤ کہ آسمان و زمین کا چرخہ چلانے والا ایک ھے یا
دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ "

بُڑھیا نے جواب دیا.. " ایک ھے اور اس دعویٰ کی دلیل بھی یہی میرا چرخہ ھے ۔۔۔۔۔۔ کیوں
کہ جب اس چرخہ کو مَیں اپنی مرضی سے ایک طرف کو چلاتی ہُوں ۔۔۔۔۔۔۔ تو یہ چرخہ میری
مرضی سے ایک ہی طرف کو چلتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی دوسرا چلانے والا ہوتا ۔۔۔۔۔۔ تب تو
چرخہ کی رفتار تیز یا آہستہ ہو جاتی ۔۔۔۔۔۔ اور اس چرخہ کی رفتار میں فرق آنے سے مطلوبہ نتیجہ حاصل نہ ہوتا ۔۔۔۔۔ یعنی اگر کوئی دوسرا صریحاً میری مرضی کے خلاف اور میرے چلانے کی مخالف جہت پر چلاتا ۔۔۔۔۔ تو یہ چرخہ چلتے چلتے ٹھہر جاتا ۔۔۔۔۔۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہُوا.. اس وجہ سے کہ کوئی دُوسرا چلانا والا ھے ہی نہیں ۔۔۔۔۔ اسی طرح آسمان و زمین کا چلانے والا اگر کوئی دُوسرا خدا ہوتا ۔۔۔۔۔۔ تو ضرور آسمانی چرخہ کی رفتار تیز ہو کر دن رات کے نظام میں فرق آ جاتا ۔۔۔۔۔۔ یا چلنے سے ٹھہر جاتا ۔۔۔۔۔ یا ٹوٹ جاتا ۔۔۔۔ جب ایسا نہیں ھے تو پھر ضرور آسمان و زمین کے چرخہ کو چلانے والا ایک ہی خدا ھے..!! "

''بچی -گرل فرینڈ- پڑھے لکھے لوفروں کے نام''

'''بچی -گرل فرینڈ- پڑھے لکھے لوفروں کے نام''

ایک سوال جو مجھے حیران کے رکھتا تھا .اور ہے .کے کائنات کی حد کیا ہے ...بلکل اسی طرح آج کل ایک اور سوال مجھے پریشان کیے ہوۓ ہے کہ ذلالت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ......

ہمارے ہاں ایک اصطلاح جو لڑکیوں کیے لیے استعمال کی جارہی ہے .غلط طور پر .اور بہت غلط انداز سے ..کہ گرل فرینڈ یا کوئی بھی دوست یا انجان لڑکی کو انتہائی لوفرانہ انداز میں ''بچی'' پکارا جاتا ہے .....''بچی '' کی یہ اصطلاح ذہنی بیمار پڑھے لکھے جاہلوں کی بدترین اختراع ہے ........

نفسیاتی لوگوں نے اپنی بیمار ذہنیت کی تسکین کیلیے اس لفظ ''بچی '' کو کچھ ایسے غلیظ انداز میں بے دردی سے استمال کیا ہے .کہ انسانیت کی روح شرافت کیے آئنے میں اپنا چہرہ دیکھنے کیے قابل نہیں ہوگی ......
بڑھتی ہوئی بے راہ روی کیے حوالے سے ہمارا لاپرواہانہ رویہ جانے ہمیں اب اور کیا کیا دن دکھائیگا ....

اپنی قبر اور اپنے اعمال کی بات .اگر آپ کی سوچ کا محور ہے .تو یاد رکھیے ہم سے زیادہ طاقتور قومیں برائی کے خلاف خاموش تمشائی کے کردار کی وجہ سے ہلاک کی جاچکی ہیں ......

چلیں آپ کو آخرت کی فکر نہ سہی .تو بھی اسی دنیا میں برائی کو دیکھ چپ رہنے کی عادت بہت جلد آپ کو پیشمان کر دیگی ...
کبوتر کی طرح آنکھ بند کرنے سے مصیبت نہیں ٹلتی .نا ہی شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دینا مسلہ کا حل ہوتا ہے .......

بڑھتی ہوئی بے راہ روی .فحش کلامی .غلط انداز گفتگو . .اور خراب طرز عمل کے خلاف اگر آپ چپ کا روزہ رکھنگے تو بہت جلد اس روزے کو اپنی عزت اور شرافت کے قیمے سے افطار کرنا پڑ سکتا ہے ...........

پاکیزہ لفظ بچی کو اپنی غلیظانہ سوچ میں لتھڑنے والے لوگ بھی یاد رکھیں .کہ وہ بھی کسی بچی کے بھائی یا باپ ہیں .نہیں تو ہونگے ضرور . ......اور ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کے ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے ..........اور کانٹے بو کر پھولوں کی تمنا نری حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں ..................

Sunday, July 7, 2013

اصلاح کرنا بہت مشکل

ایک نوجوان نے تصویر بنائی اور جا کر شہر کے چوک میں ٹانک دی نیچے لکھ دیا

" جہاں کہیں نقص ہو نشان لگا دیں"

شام کے وقت وہ خوش خوش واپس آیا اس کو یقین تھا کہ لوگوں نے تصویر کو پسند کیا ہو گا۔ لیکن یہ دیکھ کر بہت اداس ہوا کہ تصویر پر نشان ہی نشان لگے ہوۓ تھے۔ لڑکا پریشان حال گھر پہنچا، باپ نے وجہ پوچھی تو سارا قصہ سنا ڈالا۔ باپ نے کہا کہ ویسی ہی ایک تصویر بناؤ، اور اس پہ لکھو

" جہاں کہیں نقص ہو درست کر دیں"

لڑکے نے تصویر بنائی اور یہ لکھ کر شہر کے چوک میں آویزاں کر آیا۔
شام کو جب واپس گیا تو یہ دیکھ کر خوش ہوا کہ آج اس پر نشان نہیں تھے ۔

ہم دوسروں میں وہی نقص دیکھتے ہیں جو ہم میں موجود ہوتے ہیں ہم نقص تو نکال لیتے ہیں لیکن اصلاح نہیں کرتے۔
چونکہ نقص نکالنا آسان ہوتا ہے لیکن
اصلاح کرنا بہت مشکل۔

غیر اخلاقی گفتگو سے کسی کی تذلیل نہیں ہوتی بلکہ ہم اپنی ہی شخصیت کا اظہار کر دیتے ہیں۔

Friday, July 5, 2013

ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ زندگی ﺑﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ


ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ زندگی ﺑﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ :

ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭩﺎ ﭘﮍﮪ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﺁﺩﻣﯽ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ. ﻭﺍﻟﺪ ﮐﯽ
ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ
ﻗﺎﺑﻞ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ. ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ
ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺭﮨﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﺳﭩﯿﭩﺲ ﻣﯿﮟ ﻓﭧ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ. ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺣﺠﺎﺏ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﯽ ﯾﮧ
ﺍﻥ ﭘﮍﮪ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ - ﺳﺎﺱ ﮨﮯ. ﺑﺎﺕ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ -
"ﻣﺎﮞ .. ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺍﺱ ﻗﺎﺑﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ
... ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻗﺮﺽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ. ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ
ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺁﺝ ﺗﻢ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﺏ
ﺗﮏ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﺳﻮﺩ ﺳﻤﯿﺖ ﻣﻼ ﮐﺮ ﺑﺘﺎ ﺩﻭ. ﻣﯿﮟ
ﻭﮦ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ. ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﺍﻟﮓ - ﺍﻟﮓ ﺳﮑﮭﯽ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ.

ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ !!!

"ﺑﯿﭩﺎ _ ﺣﺴﺎﺏ ﺫﺭﺍ ﻟﻤﺒﺎ ﮨﮯ، ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ. ﻣﺠﮭﮯ
ﺗﮭﻮﮌﺍ ﻭﻗﺖ ﭼﺎﮨﯿﮯ".

ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮧ ﮐﮩﺎ"-ﻣﺎﮞ .... ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻠﺪﻱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ. ﺩﻭ - ﭼﺎﺭ
ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ".

ﺭﺍﺕ ﮨﻮﺋﯽ، ﺳﺐ ﺳﻮ ﮔﺌﮯ. ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻟﻮﭨﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻟﯿﺎ
ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ. ﺑﯿﭩﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﭘﺎﻧﯽ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ. ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﮐﺮﻭﭦ ﻟﮯ ﻟﯽ. ﻣﺎﮞ
ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ. ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺟﺲ
ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻭﭦ ﻟﯽ .. ﻣﺎﮞ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﻑ ﭘﺎﻧﯽ ﮈﺍﻟﺘﯽ
ﺭﮨﯽ ﺗﻮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﻛﮭﻴﺞ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ ﮐﮧ ﻣﺎﮞ
ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺴﺘﺮ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ - ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮ ﮈﺍﻻ ؟...
ﻣﺎﮞ ﺑﻮﻟﯽ -
"ﺑﯿﭩﺎ، ﺗﻮﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﻮ
ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ. ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﺭﺍﺗﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﺴﺘﺮ ﮔﯿﻼ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﮯ
ﺳﮯ ﺟﺎﮔﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻛﺎﭨﻲ ﮨﯿﮟ. ﯾﮧ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﺭﺍﺕ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻮ
ﺍﺑﮭﯽ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮔﯿﺎ ؟.. ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﺣﺴﺎﺏ
ﺷﺮﻭﻉ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺗﻮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﭘﺎﺋﮯ".

ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﻧﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﺟﮭﻨﺠﮭﻮﮌ ﮐﮯ
ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ. ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺭﺍﺕ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮔﺰﺍﺭ
ﺩﯼ. ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺳﮯ ﯾﮧ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ
زندگی ﺑﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ۔" :'(

کیا ماں کی محبت کا قرض ادا کیا جا سکتا ہے ؟؟؟ ۔ "

Thursday, July 4, 2013

ایسا تکبر اور ایسی بڑائی جس کا ٹھکانا ایک وحشتناک قبر ہے


جنوبی افریقیا کے شہر جوھانسبرگ سے لندن آتے ہوئے پرواز کے دوران، اکانومی کلاس میں ایک سفید فام عورت جس کی عمر پچاس یا اس سے کچھ زیادہ تھی کی نشست اتفاقا ایک سیاہ فام آدمی کے ساتھ بن گئی۔

عورت کی بے چینی سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ اس صورتحال سے قطعی خوش نہیں ہے۔ اس نے گھنٹی دیکر ایئر ہوسٹس کو بلایا اور کہا کہ تم اندازہ لگا سکتی ہو کہ میں کس قدر بری صورتحال سے دوچار ہوں۔ تم لوگوں نے مجھے ایک سیاہ فام کے پہلو میں بٹھا دیا ہے۔ میں اس بات پر قطعی راضی نہیں ہوں کہ ایسے گندے شخص کے ساتھ سفر کروں۔ تم لوگ میرے لئے متبادل سیٹ کا بندوبست کرو۔
ایئر ہوسٹس جو کہ ایک عرب ملک سے تعلق رکھنے والی تھی نے اس عورت سے کہا، محترمہ آپ تسلی رکھیں، ویسے تو جہاز مکمل طور پر بھرا ہوا ہے لیکن میں جلد ہی کوشش کرتی ہوں کہ کہیں کوئی ایک خالی کرسی تلاش کروں۔

ایئرہوسٹس گئی اور کچھ ہی لمحات کے بعد لوٹی تو اس عورت سے کہا، محترمہ، جس طرح کہ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ جہاز تو مکمل طور پر بھرا ہوا ہے اور اکانومی کلاس میں ایک بھی کرسی خالی نہیں ہے۔ میں نے کیپٹن کو صورتحال سے آگاہ کیا تو اس نے بزنس کلاس کو بھی چیک کیا مگر وہاں پر بھی کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔ اتفاق سے ہمارے پاس فرسٹ کلاس میں ایک سیٹ خالی ہے۔

اس سے پہلے کہ وہ سفید فام عورت کچھ کہتی، ایئرہوسٹس نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے کہا، ہماری کمپنی ویسے تو کسی اکانومی کلاس کے مسافر کو فرسٹ کلاس میں نہیں بٹھاتی، لیکن اس خصوصی صورتحال میں کیپٹن نے فیصلہ کیا ہے کہ کوئی شخص ایسے گندے شخص کے ساتھ بیٹھ کر اپنا سفر ہرگز طے نا کرے۔ لہذا۔۔۔۔

ایئرہوسٹس نے اپنا رخ سیاہ فام کی طرف کرتے ہوئے کہا، جناب محترم، کیا آپ اپنا دستی سامان اُٹھا کر میرے ساتھ تشریف لائیں گے؟ ہم نے آپ کیلئے فرسٹ کلاس میں متبادل سیٹ کا انتظام کیا ہے۔
آس پاس کے مسافر جو اس صورتحال کو بغور دیکھ رہے تھے، ایسے فیصلے کی قطعی توقع نہیں رکھ رہے تھے۔ لوگوں نے کھڑے ہو کر پر جوش انداز سے تالیاں بجا کر اس فعل کو سراہا جو کہ اس سفید فام عورت کے منہ پر ایک قسم کا تھپڑ تھا۔

بنی آدم جس کی پیدائش نطفے سے ہوئی, جس کی اصلیت مٹی ہے, جس کے اعلیٰ ترین لباس ایک کیڑے سے بنتے ہیں, جس کا لذیذ ترین کھانا ایک (شہد کی) مکھی کے لعاب سے بنتا ہے، اور ایسا تکبر اور ایسی بڑائی جس کا ٹھکانا ایک وحشتناک قبر ہے

Monday, July 1, 2013

رات والا معاملہ


اورنگ زیب عالمگیربڑا مشہور مغل شہنشاہ گزرا ہے اس نے ہندوستان پر تقریباً 50سال حکومت کی تھی۔ ایک دفعہ ایک ایرانی شہزادہ اسے ملنے کے لئے آیا۔ بادشاہ نے اسے رات کو سلانے کا بندوبست اس کمرے میں کرایا جو اس کی اپنی خوابگاہ سے منسلک تھا۔
ان دونوں کمروں کے باہر بادشاہ کا ایک بہت مقرب حبشی خدمت گزار ڈیوٹی پر تھا۔ اس کا نام محمد حسن تھا۔ اور بادشاہ اسے ہمیشہ محمد حسن ہی کہا کرتاتھا
ھا۔ اس رات نصف شب کے بعد بادشاہ نے آواز دی’’حسن! ‘‘۔ نوکر نے لبیک کہا اور ایک لوٹا پانی سے بھرکر بادشاہ کے پاس رکھا اور خود واپس باہر آگیا۔ ایرانی شہزادہ بادشاہ کی آواز سن کر بیدار ہوگیا تھا اور اس نے نوکر کو پانی کا لوٹا لیے ہوئے بادشاہ کے کمرے میں جاتے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ نوکر لوٹا اندر رکھ کر باہر واپس آگیا ہے۔ اسے کچھ فکر لاحق ہوگئی کہ بادشاہ نے تو نوکر کو آواز دی تھی اور نوکر پانی کا لوٹا اس کے پاس رکھ کر واپس چلا گیا ہے۔ یہ کیا بات ہے؟
صبح ہوئی شہزادے نے محمد حسن سے پوچھا کہ
رات والا کیا معاملہ ہے؟ مجھے تو خطرہ تھا کہ بادشاہ دن نکلنے پر تمہیں قتل کرادے گا کیونکہ تم نے بادشاہ کے کسی حکم کا انتظار کرنے کی بجائے لوٹا پانی سے بھر کر رکھ دیا اور خود چلے گئے۔
نوکر نے کہا:’’عالی جاہ !ہمارے بادشاہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی بغیر وضو نہیں لیتے۔ جب انہوں نے مجھے حسن کہہ کر پکارا تو میں سمجھ گیا کہ ان کا وضو نہیں ہے ورنہ یہ مجھے ’’محمد حسن‘‘ کہہ کر پکارتے
اس لیے میں نے پانی کا لوٹا رکھ دیا تاکہ وہ وضو کرلیں۔

Sunday, June 30, 2013

حکایات شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ

دو شخص آپس کی مخالفت میں اس حد تک پہنچے ہوئے تھے کہ چیتے کی طرح ایک دوسرے پر حملہ کرنے کی سوچتے تھے۔ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ اک دوسرے کی نظروں سے بچنے کے لیے انہیں آسمان کے نیچے جگہ نہ ملتی تھی۔ ان میں ایک کو موت نے آ دبوچا۔ دوسرے کو اس کی موت کی بہت خوشی ہوئی۔ کافی عرصے بعد وہ اس کی قبر کے باس سے گذرا تو اس نے دیکھا کہ جس متکبر کے مکان پر سونے کی پاش ہوئی تھی آج اس کی قبر مٹی سے لپی ہوئی تھی۔ غصے میں آکر اس نے مرے ہوئے دشمن کی قبر کا تختہ اکھاڑ ڈالا۔ دیکھا تو تاج پہننے والا سرایک گڑھے میں پڑا ہوا تھا۔اس کی خوبصورت آنکھوں میں مٹی بھری ہوئی تھی۔ وہ قبر کی جیل میں قید ہو چکا تھا اور اس کے جسم کو کیڑے مکوڑے کھارہے تھے۔اس کا موٹا تازہ جسم پہلی رات کے چاند کی طرح دبلا ہو چکا تھا اور اس کا سر و قد تنکے کی طرح باریک ہو گیا تھا۔ اس کے پنجے اور ہتھیلی کے جوڑ بالکل علیحدہ ہو چکے تھے۔ دشمن کی یہ حالت زار دیکھ کر اس کا دل بھر آیا۔ اس کے آنسوئوں سے قبر کی مٹی تر ہو گئی۔ وہ اپنے کرتوتوں پر شرمندہ ہو گیا اور تلافی کے لیے اس نے حکم دیا کہ اس کی قبر پر لکھ دیا جائے کہ کوئی شخص کسی دشمن کی موت پر خوش نہ ہو کیونکہ وہ خود بھی زیادہ دن موت کے ہاتھوں سے بچ نہیں سکے گا۔ اس کی یہ بات سن کر ایک خدا شناس آدمی کو رونا آگیا اور کہنے لگا۔ اے قادرمطلق خدا! اگر تو نے اس کی بخشش نہ کی جس کی حالت زار پر دشمن بھی رو پڑا تو تیری رحمت پر بڑا تعجب ہوگا۔ ہمارا جسم بھی کسی دن ایسا ہو جائے گا کہ اسے دیکھ کر دشمنوں کو بھی رحم آجائے گا۔ دو دن کی زندگی ہے کوئی نہیں جانتا موت کب آجائے اس زندگی میں کسی چیز پر غرور اور تکبر نہ کرنا چاہیے . . .

حکایات شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ،،
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﻼﺯﻡ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻓﺘﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺩﻓﺘﺮ ﮐﮯ ﮔﯿﭧ ﭘﺮ ﻟﮕﮯﮨﻮﺋﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﭨﺲ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺘﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﺎﻭﭦ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﻞ ﺭﺍﺕ ﺍﺳﮑﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺁﭖﺳﮯ ﮔﺰﺍﺭﺵ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﺭﺳﻮﻣﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺎﻧﻔﺮﻧﺲ ﮨﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﺁﺋﯿﮟﺟﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﺍﺳﮑﯽ ﻣﯿﺖ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ۔ﯾﮧ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺍﺩﺍﺱ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﭼﻨﺪﻟﻤﺤﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﺠﺴﺲ ﻏﺎﻟﺐ ﺁ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺁﺧﺮﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﮐﻮﻥ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ
ﺭﮐﺎﻭﭦ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﺗﺠﺴﺲ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﮐﺎﻧﻔﺮﺱ ﮨﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﮯﺩﻓﺘﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﻗﯽ
ﺳﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻧﻮﭨﺲ ﮐﻮ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ ﮐﮧﺁﺧﺮ ﯾﮧ ﺷﺨﺺ ﮐﻮﻥ ﺗﮭﺎ۔
ﮐﺎﻧﻔﺮﺱ ﮨﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﮨﺠﻮﻡ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺳﮑﯿﻮﺭﭨﯽ ﮔﺎﺭﮈﮐﻮ ﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺍ ﮐﮧ ﺳﺐ ﻟﻮﮒ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺖ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﮟ۔
ﺳﺐ ﻣﻼﺯﻣﯿﻦ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺖ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﮐﻔﻦ ﮨﭩﺎﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﯽ ﻟﯿﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺯﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﮓ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﯽ ﺯﺑﺎﻥﮔﻮﯾﺎ ﺗﺎﻟﻮ ﺳﮯ ﭼﭙﮏ ﺟﺎﺗﯽ ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺘﺎ ﮐﮧ ﮔﻮﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﮔﮩﺮﯼ ﺿﺮﺏ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﮨﻮ۔
ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﺭﯼ ﺁﻧﮯ ﭘﺮ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺪﺭ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺖ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﮐﭙﮍﺍ ﮨﭩﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎﺣﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﺟﯿﺴﺎ ﮨﯽ ﮨﻮﺍ
ﮐﻔﻦ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﺳﺎ ﺁﺋﯿﻨﮧ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺷﺨﺺ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﺘﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﮐﺮﮐﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﺎﻭﭦﺑﻦ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺁﭖ ﺧﻮﺩ ﮨﯿﮟ۔
ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﯿﮱ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﺁﭖ ﮐﯽ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺑﺎﺱ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮﻧﮯﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ۔ﺁﭖ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﺗﺐ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﻼﺣﯿﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯﮨﯿﮟ ، ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﮐﻮ ﻣﻤﮑﻦ ﺍﻭﺭ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﮐﻮ ﭼﯿﻠﻨﺞ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﺠﺰﯾﮧ ﮐﺮﯾﮟ ۔ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮﺁﺯﻣﺎﺋﯿﮟ ۔ ﻣﺸﮑﻼﺕ ، ﻧﻘﺼﺎﻧﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﻣﻤﮑﻨﺎﺕ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍﻧﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻓﺎﺗﺢ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ
ﺟﯿﺌﯿﮟ

Saturday, June 29, 2013

Welcome to the 'Stock' Market!


Once upon a time in a village, a man appeared and announced to the villagers that he would buy monkeys for Rs.10/-

The villagers seeing that there were many monkeys around, went out to the forest and started catching them.

The man bought thousands at Rs.10/- and as supply started to diminish, the villagers stopped their effort. He further announced that he would now buy at Rs.20/- This renewed the efforts of the villagers and they started catching monkeys again.

Soon the supply diminished even further and people started going back to their farms. The offer rate increased to Rs.25/- and the supply of monkeys became so little that it was an effort to even see a monkey, let alone catch it!

The man now announced that he would buy monkeys at Rs.50/-! However, since he had to go to the city on some business, his assistant would now buy on behalf of him.

In the absence of the man, the assistant told the villagers. Look at all these monkeys in the big cage that the man has collected. I will sell them to you at Rs.35/- and when the man returns from the city, you can sell it to him for Rs.50/-

The villagers squeezed up with all their savings and bought all the monkeys.

Then they never saw the man nor his assistant, only monkeys everywhere.

Welcome to the 'Stock' Market!


یہ ایک عبرت ناک واقعہ ان مردوں کے لیے جو ہوس کے پجاری اور ان کالج کی لڑکیوں کے لیے نصیحت سے پر ہے جو کالج آف هونے پر گیٹ تک سفر نہیں کرتی بلکہ کالج واش روم میں جاتی ہیں حجاب سیٹ کرنے یا جو بھی مقصد هو

چند ہزار میں کالج کی آیا کو منایا گیا...اسے اس کا کام سمجھایا. بھوک شاید صحیح غلط میں فرق ختم کردیتی هے... آیا جس کی شاید اپنی بھی جوان بیٹیاں هوں.. 3 لڑکے کالج کے باہر گھات لگائے کسی شکاری کی ماند انتظار کر رہے تھے.. جونہی کالج میں گھنٹی بجی لڑکے الرٹ هوگئے.. سب لڑکیاں ایک ایک کر کے جانے لگی ... بے فکری کا دور زندگی کی بھرپور ہنسی لبوں پر بکھیرے هوئے کالج خالی هو گیا.

تینوں شیطان صفت لڑکے اندر داخل هوئے آیا ان کی راہنمائی کرتی هوئی کالج کے قدرے سنسان حصے میں لے آئی... آخری لڑکی یہی تھی بے هوش کر دیا هے... آیا نے راز داری سے بھوکے شکاریوں کو بتایا اور چلی گئی...

ہوس کے پجاری نے چمکتی آنکھوں سے واش روم کا تالا کھولا اور اندر چلا گیا... ایک ایک کر کے سبھی گئے اور هوس کی پیاس بجھا کر اندر کے جانور کو پرسکون کیا...

آخری لڑکا اندر گیا اور چیخیں مارتا بال نوچتا ہوا باہر آ گیا اور آ کر ان لڑکوں کو مارنے لگا... کیوں کہ اندر کوئی اور لڑکی نہیں اس کی اپنی بہن برہنہ حالت میں پڑی تھی...

اندر کوئی اور لڑکی هوتی تو تم بھی وہی کرتا جو ہم کر کے آئے ہیں اپنی بہن دیکھ کر عزت جاگ گئی تیری... ایک دوست کے یہ فقرے سن کر وه لڑکا اپنے حواس کھو بیٹھا آج وه لڑکا پاگل خانے میں ہے اور ہوس کے پجاری بھی آزاد گھوم رہے اور وه آیا ضمیر کے کچوکے سہہ نہ سکی اور سب بتا دیا کہ کیسے اس نے کالج کے بند هوتے اس لڑکی کو واش روم میں بند کیا...

خدا کے لیے دوسروں کی بہن ، بیٹی هونے والی بیوی کے ساتھ کچھ کرنے کا سوچنے سے پہلے اپنی عزت کا سوچ لیا کریں ان کے ساتھ بھی ایسا هو سکتا... اور لڑکیاں بھی کالج آف هونے پر واش روم جانے سے گریز کریں...

زرا سی بے احتیاطی عمر بھر کا روگ بن جاتا هے

خود بھی پڑھیں اور دوسروں سے بھی ضرور شئر کریں

Monday, June 24, 2013


جاپان میں بچوں کو پہلی کلاس سے لے کر پنجم کلاس تک ایک مضمون "ایٹی کیٹس " کےنام سے پڑھایا جاتا ہے اس پیریڈ میں بچہ اخلاق اور دوسروں سے کیسے پیش آنا ھے؟ یہ سیکھتا ھے ۔
پہلی سے لے کر مڈل یعنی آٹھویں تک بچے کو کہیں فیل نہیں کیاجاتا ۔اس لیے کہ اس عمر میں تعلیم کا مقصد تربیت ،معنی و مفہوم سکھانا اور تعمیر شخصیت ہوتا ھے ۔ صرف رٹنا رٹانا نہیں۔
جاپانی اگرچہ دنیا کی امیر ترین قوموں میں سے ہیں لیکن ان کے گھر میں کوئی خادم اور آیا نہیں ہوتی ۔باپ اور ماں ہی گھر کی دیکھ بھال اور اولاد کی تربیت و تعلیم کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
جاپانی بچے اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر روزانہ15 منٹ تک اپنا مدرسہ صاف کرتے ہیں ۔نتیجہ یہ ہے کہ پوری قوم عجز و انکسار کا پیکر اور صفائی ستھرائی کی شیدائی ہے ۔
جاپانی اسکولوں میں بچے اپنا ٹوتھ برش ساتھ لےجاتے ہیں ۔مدرسہ میں ہی کھانا کھانے کے بعد دانتوں کی صفائی کرتے ہیں ۔اس طرح چھوٹی عمر میں ہی انہیں حفظان صحت کی تعلیم اور تربیت ملتی ہے ۔
مدرسہ کے اساتذہ اور دیگر منتظمین بچوں کے کھانا کھانے سے آدھا گھنٹہ قبل خود یہی کھانا کھاکر چیک کرتے ہیں کہ کھانا ٹھیک ھے یا نہیں ؟ اساتذہ بچوں کو جاپان کا مستقبل سمجھتے ہیں لہذا ان کی صحت کی حفاظت ہمیشہ مقدم رکھتے ہیں۔
جاپان میں صفائی کے عملے کو "ہیلتھ انجینئر " کہا جاتا ھے اور اس کی ماہانہ تنخواہ پانچ ہزار سے آٹھ ہزار ڈالر تک ہوتی ہے ۔اور ان ورکرز کو باقاعدہ ٹیسٹ انٹرویو کے بعد ہی جاب پر رکھا جاتا ھے ۔
ریل گاڑی،ہوٹلز اور بند جگہوں پر موبائل کا استعمال ممنوع ہے ۔ موبائل میں سائلنٹ کی جگہ اخلاق لکھا ہوتا ھے ۔
ریسٹورنٹ میں جائیں تو آپ دیکھیں ہر کوئی اتنا ہی کھانا لے گا جس قدر کہ اس کی ضرورت ھے ۔کوئی فرد پلیٹ میں کھانا نہیں چھوڑتا۔
جاپان میں ریل گاڑیوں کے لیٹ ہونےکا کوئی تصور ہی نہیں ہے ۔ اسی لیے تاخیر کا سالانہ تناسب صرف 7 سیکنڈ ھے ۔جاپانی قوم وقت کی قدر اور قیمت کو اچھی طرح سے جانتی ہے اور ایک ایک سیکنڈ اور منٹ کا پورا پورا حساب رکھتی ہے

ترکستان کا بادشاہ لمبی عمر کا خواہاں تھا‘ وہ مرنا نہیں چاہتا تھا‘ اس کے طبیبوں نے بتایا‘ ہندوستان کی سرزمین پر چند ایسی جڑی بوٹیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں آب حیات کی تاثیر ہے‘ آپ اگر وہ جڑی بوٹیاں منگوا لیں تو ہم آپ کو ایک ایسی دواء بنا دیں گے جس کے کھانے کے بعد آپ جب تک چاہیں گے زندہ رہیں گے‘ ترکستان کے بادشاہ نے دس لوگوں کا ایک وفد تیار کیا اور یہ وفد ہندوستان کے راجہ کے پاس بھجوا دیا‘ اس وفد میں ترکستان کے طبیب بھی شامل تھے اور بادشاہ کے انتہائی قریبی مشیر بھی‘ وفد نے ہندوستان کے راجہ ک
و ترک بادشاہ کا پیغام پہنچا دیا‘ راجہ نے پیغام پڑھا‘ قہقہہ لگایا‘ سپاہی بلوائے اور وفد کو گرفتار کروا دیا‘ راجہ گرفتاری کے بعد انھیں سلطنت کے ایک بلند وبالا پہاڑ کے قریب لے گیا‘ اس نے پہاڑ کے نیچے خیمہ لگوایا‘ ان دس لوگوں کو اس خیمے میں بند کروایا اور اس کے بعد حکم جاری کیا‘ جب تک یہ پہاڑ نہیں گرتا‘ تم لوگ اس جگہ سے کہیں نہیں جا سکتے‘ تم میں سے جس شخص نے یہاں سے نکلنے کی کوشش کی اس کی گردن مار دی جائے گی۔

راجہ نے اپنا فوجی دستہ وہاں چھوڑا اور واپس شہر آگیا‘ ترکستانی وفد کو اپنی موت صاف نظر آنے لگی‘ وہ پہاڑ کو اپنی مصیبت سمجھنے لگے‘ مشکل کی اس گھڑی میں اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی حامی ‘ کوئی ناصر نہیں تھا‘ وہ زمین پر سجدہ ریز ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑانے لگے‘ وہ صرف کھانا کھانے‘ واش روم جانے یا پھر وضو کرنے کے لیے سجدے سے اٹھتے تھے اور پھر اللہ سے مدد مانگنے کے لیے سجدے میں گر جاتے تھے‘ اللہ تعالیٰ کو ان پر رحم آ گیا چنانچہ ایک دن زلزلہ آیا‘ زمین دائیں سے بائیں ہوئی‘ پہاڑ جڑوں سے ہلا اور چٹانیں اور پتھر زمین پر گرنے لگے‘ ان دس لوگوں اور سپاہیوں نے بھاگ کر جان بچائی‘ راجہ کے سپاہی دس لوگوں کو لے کر دربار میں حاضر ہو گئے‘ انھوں نے راجہ کو سارا ماجرا سنا دیا‘ راجہ نے بات سن کر قہقہہ لگایا اور اس کے بعد ان دس ایلچیوں سے کہا‘ آپ لوگ اپنے بادشاہ کے پاس جاؤ‘ اسے یہ واقعہ سناؤ اور اس کے بعد اسے میرا پیغام دو‘ اسے کہو ’’ دس لوگوں کی بددعا جس طرح پہاڑ کو ریزہ کر سکتی ہے بالکل اسی طرح دس بیس لاکھ عوام کی بددعائیں بادشاہ کی زندگی اور اقتدار دونوں کو ریت بنا سکتی ہیں‘ تم اگر لمبی زندگی اور طویل اقتدار چاہتے ہو تو لوگوں کی بددعاؤں سے بچو‘ تمہیں کسی دواء‘ کسی بوٹی کی ضرورت نہیں رہے گی‘‘۔

Saturday, June 22, 2013


بلوچسان کی اہمیت کیا ہے ؟ کیوں دنیا بلوچستان کے پیچھے پڑی ہے؟ کیوں بلوچستان میں پاکستان ملخلف طاقتیں سر گرم ہیں اور بغاوتی تحریکوں کو امداد اور تربیت فراہم کر رہی ہیں ؟
ضرور پڑھیں اور دوسروں کو بھی آگاہ کریں.

بچپن میں نقشہ دیکھ کر ابو سے پوچھتی تھی کہ پاکستان اتنا سا کیوں ہے؟
یہاں بھی مسلمان یہاں بھی مسلمان.
مگر یہ علاقہ پاکستان میں کیوں نہیں؟
قائداعظم تو بہت طاقتور تھے انہوں نے کیوں نہیں لڑائی کی؟
ابو کہتے کہ بس پنجاب اور سندھ میں کچھ فیکٹریاں تھیں. باقی جگہوں پر صرف پہاڑ اور پتھر. انگریزوں نے جان بوجھ کر ایسا علاقہ دیا تاکہ یہاں کچھ بھی نہ ہو. اور پاکستان جلدی ختم ہوجائے. نعوذ باللہ.
دل کڑھتا تھا بلوچستان کو دیکھ کر. میں وہاں کی زمین پر سپورٹس سٹی بنوانا چاہتی تھی. جہاں دنیا کا ہر کھیل ہو. جہاں اولمپکس کرائے جائیں. ابو کہتے کہ وہاں آبادی کم ہے. اب پہاڑ کاٹ کر گیس اور پانی کی پا ئپ لائن بچھائی جائے وہ بھی سو پچاس گھروں کے لئے اتنا خرچہ کیا جائے پھر وہ بل دینے کے بھی خلاف ھیں. اسی وجہ سے کوئی سنجیدہ نہیں ہوتا.
بڑا غصہ آتا تھا. کہ قائداعظم تھوڑا پنجاب کا علاقہ بھی شامل کرا لیتے تو اچھا ہوتا.
مجھے نہیں معلوم تھا کہ پاکستان کا نقشہ کس نے بنایا ہے اور اس طرح بنایا کہ اپنا پیارا نام بھی لکھ دیا. محمد صلی اللہ علیہ وسلم. اور یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بلوچستان کے پہاڑوں میں سونے تیل اور تانبے کے خزانے ہیں.
انگریزوں نے جانے کتنی محنت کتنے سال کی مکاریوں کے بعد پاکستان کا نقشہ دیکھ کر سوچا ھوگا کہ جناح کو بیوقوف بنا دیا. وہ اس نقشے پر خوش ہوگئے.
مگر قرآن میں ہے نہ کہ اللہ بہترین چال چلنے والا ہے؟
انہوں نے اپنی طرف سے بڑی چال چلی. مگر اللہ کے سامنے ہر چال ناکام ھو گئ
.
اب ان کافروں نے نیا نقشہ بنایا ہے. پاکستان کی فوج کو حکومت، عوام اور میڈیا کی مدد اور حمایت سے محروم کر کے تنہا جنگ لڑنے کو دی. اپنی طرف سے پھر سخت چال چلی کہ
دنیا کے نئے نقشے میں پاکستان نہیں ہے. مگر شاید انکو ابھی تک اپنی اوقات پتہ نہیں چلی.
شاید یہ بھول گئے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے. دوستو اپنا قبلہ درست رکھنا. یہ بھول گئے ہیں مگر آپ اللہ کو اور اسکے احکامات کو نہ بھلانا ڈرنا اور گھبرانا نہیں. انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ اللہ انکی یہ چال بھی انہی پر پلٹ دے گا. اور تمام تر دولت، ٹیکنالوجی اور جاسوسوں کے باوجود یہ اسلام کے دشمن ناکام و نا مراد رہیں گے. انشاء اللہ

Wednesday, June 19, 2013


حضرت عمر رضی اللہ تعالہ عنہ کے دور خلافت میں مدینہ میں ایک گویا (singer) تھا جو گایا کرتا تھا طبلہ سارنگی کے بغیر
اس زمانے میں یہ بھی بھت معیوب سمجھا جاتا تھا
جب اس کی عمر 80 سال ھو گئی تو آواز نے ساتھ چھوڑ دیا
اب کوئی اس کا گانا نہیں سنتا تھا
گھر میں فقر و فاقے نے ڈیرے ڈال لئے ایک ایک کر کے گھر کا سارا سامان بِک گیا
آخر تنگ آ کر وہ شخص جنت البقیع میں گیا اور بے اختیار اللہ کو پکارا
کہ
یا اللہ ! اب تو تجھے پکارنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔۔۔۔۔مجھے بھوک ھے
میرے گھر والے پریشان ھیں
یا اللہ ! اب مجھے کوئی نہیں سنتا
تو تو سن
تو تو سن
میں تنگ دست ہوں تیرے سوا میرے حال سے کوئی واقف نہیں
حضرت عمر مسجد میں سو رہے تھے کہ خواب میں آواز آئی
عمر ! اٹھو بھاگو دوڑو ۔۔
میرا ایک بندہ مجھے بقیع میں پکار رہا ہے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ننگے سر ننگے پیر جنت البقیع کی طرف دوڑے
کیا دیکھتے ہیں کہ جھاڑیوں کے پیجھے ایک شخص دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہے
اس نے جب عمر کو آتے دیکھا تو بھاگنے لگا سمجھا کہ مجھے ماریں گے
حضرت عمر نے کہا رکو کہاں جا رہے ہو میرے پاس آؤ
میں تمھاری مدد کے لیے آیا ہوں
وہ بولا آپ کو کس نے بھیجا ہے؟
حضرت عمر نے کہا جیس سے لو لگائے بیٹھے ہو مجھے اس نے تمھاری مدد کے لئے بھیجا ھے
یہ سننا تھا وہ شخص گٹھنوں کے بل گِرا اور اللہ کو پکارا
یا اللہ !
ساری زندگی تیری نا فرمانی کی ،
تجھے بھلائے رکھا
یاد بھی کہا تو روٹی کے لئے
اور تو نے اس پر بھی "لبیک" کہا
اور میری مدد کے لئے اپنے اتنے عظیم بندے کو بھیجا
میں تیرا مجرم ہوں
یا اللہ مجھے معاف کردے
مجھے معاف کردے
یہ کہتے کہتے وہ مر گیا
حضرت عمر رضی اللہ تعالہ عنہ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی
اور اس کے گھر والوں کے لئے بیت المال سے وظیفہ مقرر فرمایا
سبحان اللہ
بے شک اللہ بڑا غفور الرحیم ھے

Tuesday, June 18, 2013

چار سو کا موبائل اور چالیس کا بیلنس۔ ۔ ۔
وہ خاکروب گٹر سے باہر نکلا تو اس کا سانس پھولا ھوا تھا۔ ۔ پورے محلے کی تکلیف ختم ھو گئی ۔ ۔ بارش کا پانی تیزی سے گٹر میں جانے لگا ۔ ۔ تماشہ دیکھنے والے اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ ۔کسی نے مڑ کر اس خاکروب کی جانب دیکھنا گوارا نہ کیا جس کی وجہ س ان کی پریشانی کا خاتمہ ھوا تھا ۔ ۔ میں نے دیکھا وہ معصوم ایک طرف بیٹھا اپنے ساتھی سے کوئی بات کر رھا تھا۔ ۔ جی چاہا اس کا شکریہ ادا کروں اور اس کے کام کی تعریف کروں ۔ میں پاس گیا تو مجھ سے پہلے بول پڑا: صاحب ایک بات سمجھ نہیں آ رھی۔
کیا؟؟
کہنے لگا : سنا ھے گورنمنٹ نے کمائی پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی ھے؟
میں مسکرایا اور کہا : ہاں لیکن تم پر ٹیکس لاگو نہیں ھوتا ۔ تم تو اتنا کماتے ھی نہیں
اس کی آنکھوں میں حیرت در آئی، کہنے لگا: لیکن مجھ سے تو باقاعدگی سے ٹیکس لیا جاتا ھے
اب حیران ھونے کی باری میری تھی ۔ میں نے کہا وہ کیسے؟
اس نے ایک پرانا اور خستہ حال موبائل نکال کر دکھاتے ھوئے کہا : صاحب 400 کا موبائل لیا تھا ۔ مہینے میں دو بار 20 روپے کا ایزی لوڈ کروا لیتا ھوں لیکن میرے بیلنس سے ٹیکس کاٹا جاتا ھے۔ میں باقاعدگی سے ٹیکس دیتا ھوں ۔ میں باعزت شہری ھوں ٹیکس چور نہیں ۔ ۔ ۔
میرا سر جھک گیا ۔ ایک گہری سانس لیتے ھوئے میں نے دھیمے سے لہجے میں کہا: ہاں تم باعزت شہری ھو ٹیکس چور نہیں ۔ ۔ حکومت تم 400 کے موبائل اور چالیس کے بیلنس پر ٹیکس لیتی ھے ۔ ۔ یار تو تم صاحب جائیداد نکلے۔ ۔ معاف کرنا تم پر واقعی ٹیکس لاگو ھوتا ھے
دنیااور آخرت میں کامیابی کیلئے رہنما اصول

ایک بدو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوا اور عرض کیا

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔
فرمایا ہاں کہو ،

دربار میں اسوقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ اُنھوں نے یہ حدیث مبارکہ تحریر کرکے اپنے پاس رکھ لی۔

بدو: میں امیر بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: قناعت اختیار کرو، امیر ہو جاؤ گے۔

بدو: میں سب سے بڑا عالم بننا چاہتا ہوں؟
ٓٓ ارشاد فرمایا: تقویٰ اختیار کرو، عالم بن جاؤ گے۔

بدو: میں عزت والا بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلانے بند کردو، باعزت ہو جاؤ گے۔

بدو: میں اچھا آدمی بننا چاہتاہوں؟
ارشاد فرمایا: لوگوں کو نفع پہنچاؤ۔

بدو: میں عادل بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: جسے اپنے لئے اچھا سمجھو وہی دوسروں کے لئے پسند کرو۔

بدو: میں طاقتور بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: اللہ پر توکل کرو۔

بدو:میں اللہ کے دربار میں خاص (خصوصیت کا) درجہ چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایاکثرت سے ذکر کرو۔

بدو: میں رزق میں کشادگی چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: ہمیشہ باوضو رہو۔

بدو: میں دعاؤں کی قبولیت چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایاحرام نہ کھاؤ۔

بدو: میں ایمان کی تکمیل چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا:اخلاق اچھا کرلو۔

بدو: میں قیامت کے روز اللہ سے گناہوں سے پاک ہو کر ملنا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: جنابت کے فوراً بعد غسل کرو۔

بدو: میں گناہوں میں کمی چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: کثرت سے استغفار کیا کرو۔

بدو: میں قیامت کے روز نور میں اُٹھنا چاہتاہوں؟
ارشاد فرمایا: ظلم کرنا چھوڑ دو۔

بدو: میں چاہتا ہوں اللہ مجھ پر رحم کرے؟
ارشاد فرمایا: اللہ کے بندوں پر رحم کرو۔

بدو:میں چاہتا ہوں، اللہ میری پردہ پوشی کرے؟
ارشاد فرمایا: لوگوں کی پردہ پوشی کرو۔

بدو:میں رسوائی سے بچنا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: زنا سے بچو۔

بدو: میں چاہتا ہوں، اللہ اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب بن جاؤں؟
ارشاد فرمایا:جو اللہ اور اُسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب ہو، اُسے اپنا محبوب بنا لو۔

بدو: میں اللہ کا فرمابردار بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: فرائض کا اہتمام کرو۔

بدو: میں احسان کرنے والا بننا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا:اللہ کی یوں بندگی کرو جیسے تم اُسے دیکھ رہے ہو، یا جیسے ہو تمہیں دیکھ رہا ہے۔

بدو: کیا چیز دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کردے گی؟
ارشاد فرمایا:دنیا کی مصیبتوں پر صبر۔

بدو: اللہ کے غصے کو کیا چیز سرد کرتی ہے؟
ارشاد فرمایا: چپکے چپکے صدقہ اور صلہ رحمی۔

بدو: سب سے بڑی برائی کیا ہے؟
ارشاد فرمایا: بد اخلاقی اور بخل۔

بدو: سب سے بڑی اچھائی کیا ہے؟
ارشاد فرمایا: اچھے اخلاق، تواضع اور صبر۔

بدو:اللہ کے غصے سے بچنا چاہتا ہوں؟
ارشاد فرمایا: لوگوں پر غصہ کرنا چھوڑ دو۔

کنز العمال ۔ مسند احمد
ایک صاحب موت سے بہت ڈرتے تھے۔ یہاں تک کہ گھر میں اس لفظ کا استعمال بالکل بند تھا اگر محلے میں کوئی مَر جاتا تو کہتے ، پیدا ہو گیا ہے۔
ایک روز گھر میں مہمان آیا۔ ابھی مہمان اور میزبان کے درمیان باتیں ہورہی تھیں کہ گھریلو ملازم روتا ہوا آیا۔۔۔ مالک نے رونے کی وجہ پوچھی تو وہ نوکر کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "میرا باپ پیدا ہوگیا ہے۔"

مہمان نے حیران ہوکر پوچھا۔۔۔۔ "اور تمھاری ماں؟
"
نوکر نے روتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔ "وہ تو دو سال پہلے پیدا ہو گئی تھی۔"

مہمان نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔ "پھر تم کب پیدا ہوئے؟"

نوکر نے کہا۔۔۔ "اگر یہی حال رہا تو میں بھی ایک دن پیدا ہو جاؤں گا۔"
ایک آدمی نے اپنے گھر فون کیا تو بیوی کی بجائے کسی اجنبی عورت نے فون اٹھایا۔ آدمی بولا “تم کون ہو”۔
عورت بولی “میں نوکرانی ہوں”۔
آدمی بولا “ہمارے گھر میں تو نوکرانی کام نہیں کرتی”۔
نوکرانی بولی “بیگم صاحبہ نے مجھے آج ہی رکھا ہے”۔
آدمی بولا “اچھا، میں اس کا خاوند بول رہا ہوں، میری بیگم کو بلا دو”۔
نوکرانی بولی “بیگم صاحبہ تو اپنے کمرے میں اپنے خاوند کے ساتھ باتیں کر رہی ہیں ”۔
آدمی بولا “اسکا خاوند تو میں ہوں وہ کون ہے ، کیا تم دس لاکھ روپے ابھی کمانا پسند کرو گی”۔
نوکرانی بولی ” ہاں کیوں نہیں، بتاؤ کیا کرنا ہے”۔
آدمی بولا ” نیچے والے کمرے سے گن نکالو اور دونوں حرامیوں کو قتل کر دو”۔
نوکرانی نے کہا ٹھیک ہے ایسے لوگوں کو قتل ہی کردینا چاہیے اور فون ہولڈ پر رکھ کر چلی گئی ، تھوڑی دیر بعد آدمی نے دو گولیاں چلنے کی آواز سنی
نوکرانی بولی “ میں نے انہیں قتل کردیا ہے ان دونوں کی لاشوں کا اب کیا کروں”۔
آدمی بولا “انہیں گھر کے پیچھے واقع سوئمنگ پول میں پھینک دو”۔
نوکرانی بولی “گھر میں تو سوئمنگ پول نہیں ہے”۔
آدمی نے تھوڑا سوچا اور پھر پوچھا “کیا یہ فلاں نمبر ہے؟”
نوکرانی نے کہا ۔ نہیں
آدمی نے کہا ، سوری رانگ نمبر اور فون بند کردیا
کہتے ہیں کہ ایک بار چین کے کسی حاکم نے ایک بڑی گزرگاہ کے بیچوں بیچ ایک چٹانی پتھر ایسے رکھوا دیا کہ گزرگاہ بند ہو کر رہ گئی۔ اپنے ایک پہریدار کو نزدیک ہی ایک درخت کے پیچھےچھپا کر بٹھا دیا تاکہ وہ آتے جاتے لوگوں کے ردِ عمل سُنے اور اُسے آگاہ کرے۔
اتفاق سے جس پہلے شخص کا وہاں سے گزر ہوا وہ شہر کا مشہور تاجر تھا جس نے بہت ہی نفرت اور حقارت سے سڑک کے بیچوں بیچ رکھی اس چٹان کو دیکھا
، یہ جانے بغیر کہ یہ چٹان تو حاکم وقت نے ہی رکھوائی تھی اُس نے ہر اُس شخص کو بے نقط اور بے حساب باتیں سنائیں جو اس حرکت کا ذمہ دار ہو سکتا تھا۔ چٹان کے ارد گرد ایک دو چکر لگائے اور چیختے ڈھاڑتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی جا کر اعلیٰ حکام سے اس حرکت کی شکایت کرے گا اور جو کوئی بھی اس حرکت کا ذمہ دار ہوگا اُسے سزا دلوائے بغیر آرام سے نہیں بیٹھے گا۔
اس کے بعد وہاں سے تعمیراتی کام کرنے والے ایک ٹھیکیدار کا گزر ہوا ۔ اُس کا ردِ عمل بھی اُس سے پہلے گزرنے والے تاجر سے مختلف تو نہیں تھا مگر اُس کی باتوں میں ویسی شدت اور گھن گرج نہیں تھی جیسی پہلے والا تاجر دکھا کر گیا تھا۔ آخر ان دونوں کی حیثیت اور مرتبے میں نمایاں فرق بھی توتھا!
اس کے بعد وہاں سے تین ایسے دوستوں کا گزر ہوا جو ابھی تک زندگی میں اپنی ذاتی پہچان نہیں بنا پائے تھے اور کام کاج کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ انہوں نے چٹان کے پاس رک کر سڑک کے بیچوں بیچ ایسی حرکت کرنے والے کو جاہل، بیہودہ اور گھٹیا انسان سے تشبیہ دی، قہقہے لگاتے اور ہنستے ہوئے اپنے گھروں کو چل دیئے۔
اس چٹان کو سڑک پر رکھے دو دن گزر گئے تھے کہ وہاں سے ایک مفلوک الحال اور غریب کسان کا گزر ہوا۔ کوئی شکوہ کیئے بغیر جو بات اُس کے دل میں آئی وہ وہاں سے گزرنے ولوں کی تکلیف کا احساس تھا اور وہ یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ پتھر وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ اُس نے وہاں سے گزرنے والے راہگیروں کو دوسرے لوگوں کی مشکلات سے آگاہ کیا اور انہیں جمع ہو کر وہاں سے پتھر ہٹوانے کیلئے مدد کی درخواست کی۔ اور بہت سے لوگوں نے مل کر زور لگاکرچٹان نما پتھر وہاں سے ہٹا دیا۔
اور جیسے ہی یہ چٹان وہاں سے ہٹی تو نیچے سے ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر اُس میں رکھی ہوئی ایک صندوقچی نظر آئی جسے کسان نے کھول کر دیکھا تو اُس میں سونے کا ایک ٹکڑا اور خط رکھا تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ: حاکم وقت کی طرف سے اس چٹان کو سڑک کے درمیان سے ہٹانے والے شخص کے نام۔ جس کی مثبت اور عملی سوچ نے مسائل پر شکایت کرنے کی بجائے اُس کا حل نکالنا زیادہ بہتر جانا۔
آپ بھی اپنے گردو نواح میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ کتنے ایسے مسائل ہیں جن کے حل ہم آسانی سے پیدا کر سکتے ہیں!
شکوہ و شکایتیں بند، اور شروع کریں ایسے مسائل کو حل کرنا!

Sunday, June 16, 2013

Dad loves you and guides you each and every day. Today it's your turn to show how much you love him...
Happy Fathers Day

Saturday, June 15, 2013

•• ... ہوس کا انجام …••
یہ ایک عبرت ناک واقعہ ان مردوں کے لیے جو ہوس کے پجاری اور ان کالج کی لڑکیوں کے لیے نصیحت سے پر ہے جو کالج آف هونے پر گیٹ تک سفر نہیں کرتی بلکہ کالج واش روم میں جاتی ہیں حجاب سیٹ کرنے یا جو بھی مقصد هو

چند ہزار میں کالج کی آیا کو منایا گیا...اسے اس کا کام سمجھایا. بھوک شاید صحیح غلط میں فرق ختم کردیتی هے... آیا جس کی شاید اپنی بھی جوان بیٹیاں هوں.. 3 لڑکے کالج کے باہر گھات لگائے کسی شکاری کی ماند انتظار کر رہے تھے.. جونہی کالج میں گھنٹی بجی لڑکے الرٹ هوگئے.. سب لڑکیاں ایک ایک کر کے جانے لگی ... بے فکری کا دور زندگی کی بھرپور ہنسی لبوں پر بکھیرے هوئے کالج خالی هو گیا.

تینوں شیطان صفت لڑکے اندر داخل هوئے آیا ان کی راہنمائی کرتی هوئی کالج کے قدرے سنسان حصے میں لے آئی... آخری لڑکی یہی تھی بے هوش کر دیا هے... آیا نے راز داری سے بھوکے شکاریوں کو بتایا اور چلی گئی...

ہوس کے پجاری نے چمکتی آنکھوں سے واش روم کا تالا کھولا اور اندر چلا گیا... ایک ایک کر کے سبھی گئے اور هوس کی پیاس بجھا کر اندر کے جانور کو پرسکون کیا...

آخری لڑکا اندر گیا اور چیخیں مارتا بال نوچتا ہوا باہر آ گیا اور آ کر ان لڑکوں کو مارنے لگا... کیوں کہ اندر کوئی اور لڑکی نہیں اس کی اپنی بہن برہنہ حالت میں پڑی تھی...

اندر کوئی اور لڑکی هوتی تو تم بھی وہی کرتا جو ہم کر کے آئے ہیں اپنی بہن دیکھ کر عزت جاگ گئی تیری... ایک دوست کے یہ فقرے سن کر وه لڑکا اپنے حواس کھو بیٹھا آج وه لڑکا پاگل خانے میں ہے اور ہوس کے پجاری بھی آزاد گھوم رہے اور وه آیا ضمیر کے کچوکے سہہ نہ سکی اور سب بتا دیا کہ کیسے اس نے کالج کے بند هوتے اس لڑکی کو واش روم میں بند کیا...

خدا کے لیے دوسروں کی بہن ، بیٹی هونے والی بیوی کے ساتھ کچھ کرنے کا سوچنے سے پہلے اپنی عزت کا سوچ لیا کریں ان کے ساتھ بھی ایسا هو سکتا... اور لڑکیاں بھی کالج آف هونے پر واش روم جانے سے گریز کریں...

زرا سی بے احتیاطی عمر بھر کا روگ بن جاتا هے

خود بھی پڑھیں اور دوسروں سے بھی ضرور شئر کریں
قائداعظم ریذیڈنسی تباہ نہیں ہوئی، بس تھپڑپڑاہے ۔ ۔ ۔ بہت دردہورہاہے۔۔!
تم 200بندے ماردیتے، اتنادکھ نہیں ہوتا، تم نے ہمیں ہماری نظروں میں گرادیا، ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔ ۔ بے بس لوگوں کا لشکر
تمہاری نفرت بجا ۔ ۔ یہ امانت سمجھ کر رکھ لی ہے ہم نے۔ ۔ تم قوم پرست ہو توہم بھی قوم پرست ہیں ۔ ۔ اور پاکستانی قوم پرست تمہاری اس نفرت کی امانت کو سود سمیت لوٹائیں گے ۔۔ یہ وعدہ ہے ۔۔ پکا وعدہ۔۔!

اج ھمارے قائد کا گھر جل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
میرے دل مین اک بارود سا بھر گیاھے ، کہ کس ناپاک قدموں نے اس سر زمین کی حرمت کو پامال کرنے کی قسم کھائ ھے ،
ھم چپ ھیں ، ھم یہ ظلم دیکھ رھے ھیں ، احتجاج کرنا چاہتے ھین ، مگر لگتا ھے ھماری آواز کو دبا دیا گیا ھو ، کیونکہ جب منصفوں کی سماعتیں بوجھل ھو جاہیئں تو لب چپ ھی ھو جاتے ھیں ۔۔
ھمارے ھاتھوں مین مفادات کی زنجیریں ڈال دی جاتی ھیں ، ھماری انکھوں پر بے ٖضمیری کی پٹی باندھ دی جاتی ھے ، جو کہ ھماری غیرت کو ورکے رکھتی ھے ،
مگر ھم انے والی نسلوں کے چور بن رھے ھیں ، ان کے سوالوں کے جواب نہی دے پایئں گے ، کہ کیوں اج ھمارے ارض پاک کی عزت اور ابرو کو پامال کر رھا ھے ،،
اس کا جواب کون دے گا کہ ھم خود ھی اس دھرتی کو جہنم رسید کر رھے ھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مین شرمندہ ھوں ۔۔ بہت شرمندہ ھوں ۔ اپنی ساری انے والی نسلوں سے ، اپنے قائدوں سے ، ھم نے ان کی پوشاکیں تک تار تار کر دی ھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شرمندہ ھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


’ایک کرکٹر کی شدت پسندی‘

بھارت کے حالیہ دورے میں ریکارڈ ساز کارکردگی دکھانے والا جنوبی افریقی کرکٹر ہاشم آملہ بہت سی باتوں میں اپنے ساتھیوں سے مختلف ہے۔ مثلًا وہ پہلا انڈین ہے جو جنوبی افریقہ سے کھیلا۔

پھر کرکٹ میں سب سے ممتاز داڑھی بھی اسی کے پاس ہے۔ مگر جو بات ان سب باتوں پر سبقت لے جاتی ہے وہ اس کی کرکٹ کٹ ہے۔

جنوبی افریقی ٹیم کو کاسل لاگر کا تعاون حاصل ہے جو کہ ایک شراب بنانے والی کمپنی ہے۔ تمام کھلاڑیوں کی کٹ پر کاسل لاگر کا نشان موجود ہوتا ہے، سوائے ہاشم آملہ کے۔ وہ فخر سے بتاتا ہے کہ اس کی کمائی میں اس کمپنی کی جانب سے ایک پائی بھی شامل نہیں۔ یہاں تک کہ وہ ان ٹیسٹ میچوں کی بونس فیس بھی نہیں لیتا جو کاسل لاگر کے تعاون سے کھیلے جاتے ہیں۔

سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جنوبی افریقی بورڈ نے اس کے اس فیصلے کا پورا لحاظ کیا ہے اور کبھی اس پر کوئی پھبتی نہیں کسی۔ سب اس شراب نہ پینے والے مولوی کو حیرت سے دیکھتے ہیں جس کی زندگی میں دین کا عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے اور ساتھ ہی میں کارکردگی میں نکھار بھی آرہا ہے۔ وہ بڑے تحمل سے بتاتا ہے کہ وہ کوئی فرشتہ نہیں مگر وہ شراب نہیں پیتا اور پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے ادا کرتا ہے۔

جنوبی افریقہ جیسی سیاہ تاریخ رکھنے والے ملک میں ایک مسلمان کی عزت اس کے دین کی وجہ سے ہونا آج کے دور میں کسی معجزے سے کم نہیں۔ لیکن یہی ہاشم آملہ اگر پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں شامل ہوتا تو ہر ناکامی کا ذمہ اس کے دین پر تھوپ دیا جاتا۔ ہماری ذہنیت کیا ہے؟ اس کے سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم جاں ہے محمد علی جناح
" فکر کے درخت کو صبر کا پانی دیتے رہنا چاہیے تا کہ آنے والی نسلیں

خوشحال زندگی بسر کریں.

زندگی گزارنے کا صحیح لطف اسی میں ہے کہ آپ کا دل محبت اور دماغ

عقل سے بھرا ہو.

بلندی سے کھڑے ہو کر نیچے حقارت سے مت دیکھیں بلکہ یہ سوچیں

کہ کبھی آپ بھی نیچے کھڑے تھے.

کسی پر کیچڑ مت اُچھالو اس سے دوسروں کے کپڑے خراب ہوں یا نہ

ہوں مگر تمھارے ہاتھ ضرور خراب ہو جائیں گے.

جو چھوٹے ہاتھ سے دیتا ہے وہ لمبے ہاتھ سے پاتا ہے.

مانگو گے تو تمھیں دیا جائے گا، ڈھونڈو گے تو پاؤ گے.

علم ایسا بادل ہے جس سے رحمت ہی رحمت برستی ہے.

مشاہدے سے آپ بہت کچھ جان سکتے ہیں مگر سیکھتے تجربے سے

ہی ہیں.

سکھ خوشی کا نام نہیں، غم اور خوشی دونوں سے بے نیاز ہونے کا

نام ہے.

کہنے والا یقین سے محروم ہو تو سننے والا تاثیر سے محروم رہتا ہے.

موت کو یاد رکھنا نفس کی تمام بیماریوں کی دوا ہے.

علم کی طلب میں شرم مناسب نہیں، جہالت شرم سے بد تر ہے ۔ "


اس مشکل گھڑی میں ہمارے لئے پیارے قائد کا کیا پیغام ہے - ضرور پڑھیں اور سب کے ساتھ شیئر کریں اور عمل کریں

میرے شہر جل رہے ہیں، میرے لوگ مر رہے ہیں

کبھی رحمتیں تھیں نازل اِسی خطئہ زمیں پر
وہی خطئہ زمیں ہے کہ عذاب اُتر رہے ہیں

وہی طائروں کے جُھرمٹ جو ہوا میں جُھولتے تھے
وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں

بڑی آرزو تھی ہم کو، نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں

Thursday, June 13, 2013

Another Power Shortage Relief Package
"میرے گھر والد صاحب بھی بیمار ہیں اور میری بیوی بھی۔ میں اس انتظار میں تھا کہ نئے بجٹ میں شاید میری تنخواہ بڑھ جائے اور میں ان کے علاج کے لیے پیسے اکٹھے کر لوں۔"

یہ کہہ کر وہ غریب تو چل دیا لیکن مجھے گہری سوچ میں گم کر گیا۔ یا اللہ ہم پہ رحم فرما۔

سودی نظام میں ڈوبے ہوئے ملک کا وزیرِ خزانہ سود سے بھرے بجٹ کو سناتے ہوئے ہر جملے کے ساتھ انشاءاللہ تو کہتا ہے، لیکن اسے شاید یہ نہیں پتہ:

”اے ایمان والو ! اﷲ سے ڈرو اور جو سود لوگوں کے پاس باقی رہ گیا ہے اگر ایمان والے ہو تو اسے چھوڑ دو ، اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اﷲ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے خبر دار ہوجاؤ “
( البقرہ :275)

کیا ہم اتنے طاقتور ہیں کہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگ کر لیں؟

یا اللہ ہمارے حال پر رحم فرما۔ آمین۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ روم کے بادشاہ ہرقل نے عرب اور شام کی سر حد پر بسنے والے غیر مسلم قبیلوں کو مدد دے کر تیار کیا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کریں۔ جب یہ خبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپؐ نے انتظار کرنے کی بجائے خود حملہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی تیاری شروع کر دی۔
ان دنوں حکومت کی کوئی باقاعدہ آمدنی تو ہو تی نہیں تھی جب ضرورت پڑتی رسول اللہﷺ مسلمانوں کو خدا کی راہ میں چندہ کے لیے کہتے۔ اس دفعہ بھی رسول اللہؐ نے مسلمانوں کو چندہ دینے کے لیے کہا۔ ہر ایک نے اپنی اپنی طاقت کے مطابق زیادہ سے زیادہ چندہ دیا۔ کسی نے ایک ہزار درہم دیا تو کسی نے چارہزار۔ کسی نے اپنا آدھا مال خدا کی راہ میں دے دیا۔
ایک صحابی ایسے بھی تھے جنہوں نے گھر میں جو کچھ تھا اکٹھا کیا اور حضور کے قدموں میں لا ڈالا۔ مال اتنا تھا کہ رسول اللہؐ نے آپ سے پوچھا: کچھ بیوی بچوں کے لیے بھی چھوڑا ہے؟ وہ صحابی کہنے لگے: اپنی بیوی اوربچوں کے لیے خدا اور اس کا رسول چھوڑ آیا ہوں۔

جانتے ہو یہ صحابی کون ہیں؟
رسول اللہ ﷺ کے اس عاشق کا نام ابو بکر صدیق تھا، رسول اللہ ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لانے والے اور رسول اللہ ﷺ کے پہلے خلیفہ۔

Wednesday, June 12, 2013

" باادب با نصیب، بے ادب بد نصیب "
سقراط کو زہر کا پیالہ کس نے دیا...؟؟
گیلیلو جیسے سائنس دان کو فاتر العقل قرار دے کر کس نے مارا...؟؟
وہ کون سامعاشرہ تھا جہاں ارشمیدس کو توپ کے دہانے پر رکھ کر اس کے پرخچے اڑا دیئے گئے...؟؟
لاتمیر‘ سروئش اور برونو جیسے سائنس دانوں کو کس ”اجڈ“ ”گنوار“ اور ”جاہل“ قوم نے آگ کے الاوٴ میں پھینکا...؟؟
اگر یہ سب کارنامے یورپ کے ہیں اور ان میں سے کوئی فرد جرم مسلمانوں کے خلاف نہیں تو آپ مقدمہ چلائے بغیر مسلمانوں کو سائنس دشمن کیوں قرار دیناچاہتے ہیں....؟؟

۔۔۔۔........... یہ سوال ان سیکولر لوگوں سے جو 'اسلام دشمنی' میں زبردستی مسلمانوں کو سائنس کا دشمن قرار دینے پر تلے بیٹھے ہیں

” مانگو کیا مانگتے ہو؟" درویش نے اپنا کشکول آگے کردیا اور عاجزی سے بولا۔۔
” حضور! صرف میرا کشکول بھر دیں۔۔" بادشاہ نے فوراً اپنے گلے کے ہار اتارے انگوٹھیاں اتاریں جیب سے سونے چاندی کی اشرفیاں نکالیں اور درویش کے کشکول میں ڈال دیں لیکن کشکول بڑا تھا اور مال و متاع کم ۔۔ لہٰذا اس نے فوراً خزانے کے انچارج کو بلایا۔۔... انچارج ہیرے جواہرات کی بوری لے کر حاضر ہوا‘ بادشاہ نے پوری بوری الٹ دی لیکن جوں جوں جواہرات کشکول میں گرتے گئے کشکول بڑا ہوتا گیا۔۔ یہاں تک کہ تمام جواہرات غائب ہوگئے۔۔بادشاہ کو بے عزتی کا احساس ہوا اس نے خزانے کہ منہ کھول دیئے لیکن کشکول بھرنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔ خزانے کے بعد وزراء کی باری آئی. اس کے بعد درباریوں اور تجوریوں کی باری آئی‘ لیکن کشکول خالی کا خالی رہا۔۔ ایک ایک کر کے سارا شہر خالی ہوگیا لیکن کشکول خالی رہا۔۔ آخر بادشاہ ہار گیا درویش جیت گیا۔
درویش نے کشکول بادشاہ کے سامنے الٹایا‘ مسکرایا‘ سلام کیا اور واپس مڑ گیا. بادشاہ درویش کے پیچھے بھاگا اور ہاتھ باندھ کر عرض کیا۔۔
” حضور ! مجھے صرف اتنا بتادیں یہ کشکول کس چیز کا بنا ہوا ہے ؟" درویش مسکرایا اور کہا ۔۔
” اے نادان ! یہ خواہشات سے بنا ہوا کشکول ہے‘ جسے صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے۔۔