Saturday, June 15, 2013



’ایک کرکٹر کی شدت پسندی‘

بھارت کے حالیہ دورے میں ریکارڈ ساز کارکردگی دکھانے والا جنوبی افریقی کرکٹر ہاشم آملہ بہت سی باتوں میں اپنے ساتھیوں سے مختلف ہے۔ مثلًا وہ پہلا انڈین ہے جو جنوبی افریقہ سے کھیلا۔

پھر کرکٹ میں سب سے ممتاز داڑھی بھی اسی کے پاس ہے۔ مگر جو بات ان سب باتوں پر سبقت لے جاتی ہے وہ اس کی کرکٹ کٹ ہے۔

جنوبی افریقی ٹیم کو کاسل لاگر کا تعاون حاصل ہے جو کہ ایک شراب بنانے والی کمپنی ہے۔ تمام کھلاڑیوں کی کٹ پر کاسل لاگر کا نشان موجود ہوتا ہے، سوائے ہاشم آملہ کے۔ وہ فخر سے بتاتا ہے کہ اس کی کمائی میں اس کمپنی کی جانب سے ایک پائی بھی شامل نہیں۔ یہاں تک کہ وہ ان ٹیسٹ میچوں کی بونس فیس بھی نہیں لیتا جو کاسل لاگر کے تعاون سے کھیلے جاتے ہیں۔

سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جنوبی افریقی بورڈ نے اس کے اس فیصلے کا پورا لحاظ کیا ہے اور کبھی اس پر کوئی پھبتی نہیں کسی۔ سب اس شراب نہ پینے والے مولوی کو حیرت سے دیکھتے ہیں جس کی زندگی میں دین کا عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے اور ساتھ ہی میں کارکردگی میں نکھار بھی آرہا ہے۔ وہ بڑے تحمل سے بتاتا ہے کہ وہ کوئی فرشتہ نہیں مگر وہ شراب نہیں پیتا اور پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے ادا کرتا ہے۔

جنوبی افریقہ جیسی سیاہ تاریخ رکھنے والے ملک میں ایک مسلمان کی عزت اس کے دین کی وجہ سے ہونا آج کے دور میں کسی معجزے سے کم نہیں۔ لیکن یہی ہاشم آملہ اگر پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں شامل ہوتا تو ہر ناکامی کا ذمہ اس کے دین پر تھوپ دیا جاتا۔ ہماری ذہنیت کیا ہے؟ اس کے سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

No comments:

Post a Comment