یں
نے ہر لحاظ سے مکمل زندگی گزاری۔ ۔ ہر رشتے میں مجھے پرفیکٹ مانا گیا۔ ۔ ۔
اور یہ سب اس ماں کی ایک نصیحت ۔ ۔ ۔ایک وعدے کی وجہ سے تھا۔ ۔ ۔مجھے
پرفیکٹ بناننے میں جس ماں کا سب سے بڑا ہاتھ تھا۔ ۔ ۔ میں سب کو خوش رکھنے
کے چکروں میں ایسا پھنسا کہ اسی کو وقت نہ دے پایا۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اماں سے ملے
چار سال گزر چکے تھے۔ ۔ ۔اگر درمیان میں کبھی گیا بھی تو کھڑے کھڑے۔ ۔ ۔
اماں سے حال احوال پوچھ کر ۔ ۔ "کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ۔ ۔" کا گھسا پٹا
جملہ بول کر لوٹ آتا تھا۔ ۔ ۔
اماں ہر بار جیسے کچھ کہنے کے لئے منہ
کھولتیں۔ ۔ ۔ پھر میری جلدی دیکھ کر خاموش رہ جاتیں۔ ۔ ۔ ۔ اور "نہیں فادی
بیٹا۔ ۔ ۔ کچھ نہیں چاہیئے" کہہ کر خاموش نگاہوں سے مجھے تکنے لگتیں۔ ۔ ۔
میں ان کی نظروں سے الجھن محسوس کرتا اور واپسی کے لئے قدم بڑھا دیتا۔ ۔
پھر ایک دن ایسا آیا کہ میں نے بہت فرصت سے اماں کے پاس جا کر ڈھیر سارے دن گزارے۔ ۔ ۔
"اماں۔ ۔۔ ہائے میری اماں۔ ۔ " میں اماں کے سرھانے کھڑا زارو قطار رو رہا
تھا۔ ۔ ۔اماں کی منتظر آنکھیں ابھی ب
ھی نیم وا تھیں۔ ۔ ۔ ان کے ڈھلکے ہوئے
شانے مجھے پچھتاووں کے سمندر میں دھکیل
رہے تھے۔ ۔ ۔ان کے ادھ کھلے ہونٹ کچھ کہنے کی سعی کرتے محسوس ہو رہے تھے۔ ۔
۔اور میرے دل و دماغ میں اماں کی وہی ایک نصیحت ۔ ۔ ۔ ۔ جس نے مجھے
پرفیکشن کا خطاب دلایا تھا۔ ۔ ۔ گونج رہی تھی۔ ۔ ۔"میرے بچے ۔ ۔۔ کبھی کسی
کو اپنی ذات سے دکھ مت پہنچنے دینا۔ ۔ ۔ "
اب مجھے اپنے گالوں پر
نمی کا احساس ہوا ۔ ۔۔ ۔ ۔آنکھیں کھول کر ایک بار پھر سے آسمان کی طرف
دیکھا۔ ۔۔ آسمان اسی طرح شفاف تھا اور سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک
رہا تھا۔ ۔ ۔میں نے حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھا۔ ۔ ۔ مگر مجھے اس نمی اور
پانی کے قطروں کا ماخذ نہ پتہ چل سکا جو میرے چہرے کو بھگو رہے تھے۔ ۔ ۔
میں نے سامنے لگے درخت کو دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ وہ دن بدن کمزور ہوئے جا رہا ہے۔ ۔
۔ ۔ حالانکہ میں اس کی مکمل دیکھ بھال کرواتا ہوں۔ ۔ ۔ روز اس کے ساتھ
بیٹھ کر ماضی کا سفر کرتا ہوں۔ ۔ ۔ پھر بھی پتا نہیں کیوں ۔ ۔ ۔ جب سے اماں
گئی ہیں۔ ۔ ۔ یہ روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ایسا لگتا ہے جیسے اسے
کوئی روگ لگ گیا ہے۔ ۔ ۔ یہ کسی سوگ کی کیفیت میں نظر آتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ لگتا
ہے جیسے اس کی جڑیں سمٹنا شروع ہو گئی ہیں۔ ۔
ایفائے عہد سے لحد تک از منہا ملک ۔
یں
نے ہر لحاظ سے مکمل زندگی گزاری۔ ۔ ہر رشتے میں مجھے پرفیکٹ مانا گیا۔ ۔ ۔
اور یہ سب اس ماں کی ایک نصیحت ۔ ۔ ۔ایک وعدے کی وجہ سے تھا۔ ۔ ۔مجھے
پرفیکٹ بناننے میں جس ماں کا سب سے بڑا ہاتھ تھا۔ ۔ ۔ میں سب کو خوش رکھنے
کے چکروں میں ایسا پھنسا کہ اسی کو وقت نہ دے پایا۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اماں سے ملے
چار سال گزر چکے تھے۔ ۔ ۔اگر درمیان میں کبھی گیا بھی تو کھڑے کھڑے۔ ۔ ۔
اماں سے حال احوال پوچھ کر ۔ ۔ "کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ۔ ۔" کا گھسا پٹا
جملہ بول کر لوٹ آتا تھا۔ ۔ ۔
اماں ہر بار جیسے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولتیں۔ ۔ ۔ پھر میری جلدی دیکھ کر خاموش رہ جاتیں۔ ۔ ۔ ۔ اور "نہیں فادی بیٹا۔ ۔ ۔ کچھ نہیں چاہیئے" کہہ کر خاموش نگاہوں سے مجھے تکنے لگتیں۔ ۔ ۔ میں ان کی نظروں سے الجھن محسوس کرتا اور واپسی کے لئے قدم بڑھا دیتا۔ ۔
پھر ایک دن ایسا آیا کہ میں نے بہت فرصت سے اماں کے پاس جا کر ڈھیر سارے دن گزارے۔ ۔ ۔
"اماں۔ ۔۔ ہائے میری اماں۔ ۔ " میں اماں کے سرھانے کھڑا زارو قطار رو رہا تھا۔ ۔ ۔اماں کی منتظر آنکھیں ابھی ب ھی نیم وا تھیں۔ ۔ ۔ ان کے ڈھلکے ہوئے شانے مجھے پچھتاووں کے سمندر میں دھکیل رہے تھے۔ ۔ ۔ان کے ادھ کھلے ہونٹ کچھ کہنے کی سعی کرتے محسوس ہو رہے تھے۔ ۔ ۔اور میرے دل و دماغ میں اماں کی وہی ایک نصیحت ۔ ۔ ۔ ۔ جس نے مجھے پرفیکشن کا خطاب دلایا تھا۔ ۔ ۔ گونج رہی تھی۔ ۔ ۔"میرے بچے ۔ ۔۔ کبھی کسی کو اپنی ذات سے دکھ مت پہنچنے دینا۔ ۔ ۔ "
اب مجھے اپنے گالوں پر نمی کا احساس ہوا ۔ ۔۔ ۔ ۔آنکھیں کھول کر ایک بار پھر سے آسمان کی طرف دیکھا۔ ۔۔ آسمان اسی طرح شفاف تھا اور سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ ۔ ۔میں نے حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھا۔ ۔ ۔ مگر مجھے اس نمی اور پانی کے قطروں کا ماخذ نہ پتہ چل سکا جو میرے چہرے کو بھگو رہے تھے۔ ۔ ۔
میں نے سامنے لگے درخت کو دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ وہ دن بدن کمزور ہوئے جا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ میں اس کی مکمل دیکھ بھال کرواتا ہوں۔ ۔ ۔ روز اس کے ساتھ بیٹھ کر ماضی کا سفر کرتا ہوں۔ ۔ ۔ پھر بھی پتا نہیں کیوں ۔ ۔ ۔ جب سے اماں گئی ہیں۔ ۔ ۔ یہ روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ایسا لگتا ہے جیسے اسے کوئی روگ لگ گیا ہے۔ ۔ ۔ یہ کسی سوگ کی کیفیت میں نظر آتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ لگتا ہے جیسے اس کی جڑیں سمٹنا شروع ہو گئی ہیں۔ ۔
ایفائے عہد سے لحد تک از منہا ملک ۔
اماں ہر بار جیسے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولتیں۔ ۔ ۔ پھر میری جلدی دیکھ کر خاموش رہ جاتیں۔ ۔ ۔ ۔ اور "نہیں فادی بیٹا۔ ۔ ۔ کچھ نہیں چاہیئے" کہہ کر خاموش نگاہوں سے مجھے تکنے لگتیں۔ ۔ ۔ میں ان کی نظروں سے الجھن محسوس کرتا اور واپسی کے لئے قدم بڑھا دیتا۔ ۔
پھر ایک دن ایسا آیا کہ میں نے بہت فرصت سے اماں کے پاس جا کر ڈھیر سارے دن گزارے۔ ۔ ۔
"اماں۔ ۔۔ ہائے میری اماں۔ ۔ " میں اماں کے سرھانے کھڑا زارو قطار رو رہا تھا۔ ۔ ۔اماں کی منتظر آنکھیں ابھی ب ھی نیم وا تھیں۔ ۔ ۔ ان کے ڈھلکے ہوئے شانے مجھے پچھتاووں کے سمندر میں دھکیل رہے تھے۔ ۔ ۔ان کے ادھ کھلے ہونٹ کچھ کہنے کی سعی کرتے محسوس ہو رہے تھے۔ ۔ ۔اور میرے دل و دماغ میں اماں کی وہی ایک نصیحت ۔ ۔ ۔ ۔ جس نے مجھے پرفیکشن کا خطاب دلایا تھا۔ ۔ ۔ گونج رہی تھی۔ ۔ ۔"میرے بچے ۔ ۔۔ کبھی کسی کو اپنی ذات سے دکھ مت پہنچنے دینا۔ ۔ ۔ "
اب مجھے اپنے گالوں پر نمی کا احساس ہوا ۔ ۔۔ ۔ ۔آنکھیں کھول کر ایک بار پھر سے آسمان کی طرف دیکھا۔ ۔۔ آسمان اسی طرح شفاف تھا اور سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ ۔ ۔میں نے حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھا۔ ۔ ۔ مگر مجھے اس نمی اور پانی کے قطروں کا ماخذ نہ پتہ چل سکا جو میرے چہرے کو بھگو رہے تھے۔ ۔ ۔
میں نے سامنے لگے درخت کو دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ وہ دن بدن کمزور ہوئے جا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ میں اس کی مکمل دیکھ بھال کرواتا ہوں۔ ۔ ۔ روز اس کے ساتھ بیٹھ کر ماضی کا سفر کرتا ہوں۔ ۔ ۔ پھر بھی پتا نہیں کیوں ۔ ۔ ۔ جب سے اماں گئی ہیں۔ ۔ ۔ یہ روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ایسا لگتا ہے جیسے اسے کوئی روگ لگ گیا ہے۔ ۔ ۔ یہ کسی سوگ کی کیفیت میں نظر آتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ لگتا ہے جیسے اس کی جڑیں سمٹنا شروع ہو گئی ہیں۔ ۔
ایفائے عہد سے لحد تک از منہا ملک ۔
No comments:
Post a Comment