Wednesday, June 12, 2013


یں نے ہر لحاظ سے مکمل زندگی گزاری۔ ۔ ہر رشتے میں مجھے پرفیکٹ مانا گیا۔ ۔ ۔ اور یہ سب اس ماں کی ایک نصیحت ۔ ۔ ۔ایک وعدے کی وجہ سے تھا۔ ۔ ۔مجھے پرفیکٹ بناننے میں جس ماں کا سب سے بڑا ہاتھ تھا۔ ۔ ۔ میں سب کو خوش رکھنے کے چکروں میں ایسا پھنسا کہ اسی کو وقت نہ دے پایا۔ ۔ ۔ ۔ مجھے اماں سے ملے چار سال گزر چکے تھے۔ ۔ ۔اگر درمیان میں کبھی گیا بھی تو کھڑے کھڑے۔ ۔ ۔ اماں سے حال احوال پوچھ کر ۔ ۔ "کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ۔ ۔" کا گھسا پٹا جملہ بول کر لوٹ آتا تھا۔ ۔ ۔
اماں ہر بار جیسے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولتیں۔ ۔ ۔ پھر میری جلدی دیکھ کر خاموش رہ جاتیں۔ ۔ ۔ ۔ اور "نہیں فادی بیٹا۔ ۔ ۔ کچھ نہیں چاہیئے" کہہ کر خاموش نگاہوں سے مجھے تکنے لگتیں۔ ۔ ۔ میں ان کی نظروں سے الجھن محسوس کرتا اور واپسی کے لئے قدم بڑھا دیتا۔ ۔

پھر ایک دن ایسا آیا کہ میں نے بہت فرصت سے اماں کے پاس جا کر ڈھیر سارے دن گزارے۔ ۔ ۔
"اماں۔ ۔۔ ہائے میری اماں۔ ۔ " میں اماں کے سرھانے کھڑا زارو قطار رو رہا تھا۔ ۔ ۔اماں کی منتظر آنکھیں ابھی ب
ھی نیم وا تھیں۔ ۔ ۔ ان کے ڈھلکے ہوئے شانے مجھے پچھتاووں کے سمندر میں دھکیل رہے تھے۔ ۔ ۔ان کے ادھ کھلے ہونٹ کچھ کہنے کی سعی کرتے محسوس ہو رہے تھے۔ ۔ ۔اور میرے دل و دماغ میں اماں کی وہی ایک نصیحت ۔ ۔ ۔ ۔ جس نے مجھے پرفیکشن کا خطاب دلایا تھا۔ ۔ ۔ گونج رہی تھی۔ ۔ ۔"میرے بچے ۔ ۔۔ کبھی کسی کو اپنی ذات سے دکھ مت پہنچنے دینا۔ ۔ ۔ "

اب مجھے اپنے گالوں پر نمی کا احساس ہوا ۔ ۔۔ ۔ ۔آنکھیں کھول کر ایک بار پھر سے آسمان کی طرف دیکھا۔ ۔۔ آسمان اسی طرح شفاف تھا اور سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ ۔ ۔میں نے حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھا۔ ۔ ۔ مگر مجھے اس نمی اور پانی کے قطروں کا ماخذ نہ پتہ چل سکا جو میرے چہرے کو بھگو رہے تھے۔ ۔ ۔
میں نے سامنے لگے درخت کو دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ وہ دن بدن کمزور ہوئے جا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ میں اس کی مکمل دیکھ بھال کرواتا ہوں۔ ۔ ۔ روز اس کے ساتھ بیٹھ کر ماضی کا سفر کرتا ہوں۔ ۔ ۔ پھر بھی پتا نہیں کیوں ۔ ۔ ۔ جب سے اماں گئی ہیں۔ ۔ ۔ یہ روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ایسا لگتا ہے جیسے اسے کوئی روگ لگ گیا ہے۔ ۔ ۔ یہ کسی سوگ کی کیفیت میں نظر آتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ لگتا ہے جیسے اس کی جڑیں سمٹنا شروع ہو گئی ہیں۔ ۔

ایفائے عہد سے لحد تک از منہا ملک ۔

No comments:

Post a Comment